امریکہ کے آرمی چیف جنرل رے اوڈیرنو نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ تعطل کا شکار ہے اور اگر امریکی فوج کو آنے والے مہینوں میں کوئی پیش رفت نظر نہ آئے تو امریکہ کو عراقی فورسز کی مدد کے لیے زمینی فوج بھیجنے پر غور کرنا چاہیئے۔
سبکدوش ہونے والے آرمی چیف آف سٹاف اوڈیرنو نے بدھ کو پینٹاگان میں اپنی آخری پریس کانفرنس میں داعش کے خلاف موجودہ حکمت عملی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکی فوج شدت پسندوں کو شکست دے سکتی ہے، مگر وہ عراق اور شام کے سیاسی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کر سکتی۔
’’میری نظر میں ہمیں سیاسی و اقتصادی جزیات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ کام اس علاقے کے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔‘‘
جنرل اوڈیرنو، جنہوں نے گزشتہ دو دہائیاں عراق کے تنازعات سے نمٹنے میں گزاری ہیں، ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ جنرل مارک ملی لیں گے، جو اس وقت یو ایس آرمی فورسز کمانڈ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
اوڈیرنو نے عراق کی جنگ شروع ہونے کے وقت چوتھی انفنٹری ڈویژن کی قیادت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 2011 میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد جو کچھ عراق میں ہوا اسے دیکھ کر انہیں ’’مایوسی‘‘ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی قیادت میں بمباری کی مہم نے داعش کی جارحیت کو کم کرنے میں مدد دی ہے مگر ان کے بقول ’’ہم اس وقت تعطل کی حالت میں ہیں۔‘‘ داعش نے گزشتہ برس عراق کے شمال مغربی صوبے پر قبضہ کر لیا تھا۔
’’ہم نے کچھ علاقے واپس حاصل کیے ہیں اور کردوں نے اس کے لیے بہت اچھا کام کیا ہے، اور کچھ کام عراقی فورسز نے کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کرد اپنی پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ کو عراق میں زمینی فوج بھیجنی چاہیئے تو اوڈیرنو نے کہا کہ اگر امریکی فوج آنے والے مہینوں میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں حاصل کر پاتی ’’تو ہمیں یقیناً (عراقی فورسز کے ساتھ) کچھ امریکی فوجیوں کو تعینات کرنے پر غور کرنا چاہیئے، اور پھر جائزہ لینا چایئے کہ یہ حکمت عملی کام کر رہی ہے یا نہیں۔‘‘
کچھ قانون سازوں نے داعش کے خلاف موجودہ حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فضائی مہم کی مدد کرنے کے لیے امریکی فوجیوں کو عراقی فورسز کے ساتھ تعینات کرنا چاہیئے تاکہ وہ فضائی بمباری کے اہداف کی شناخت کر سکیں۔