رسائی کے لنکس

متعدد کامیابیاں اور کئی تنازعات؛ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کا 100 برس کی عمر میں انتقال


ہنری کسنجر کی عمر 100 برس سے زائد تھی۔
ہنری کسنجر کی عمر 100 برس سے زائد تھی۔

ستر کی دہائی میں سابق امریکی صدور رچرڈ نکسن اور جیرالڈ فورڈ کے دور میں امریکہ کی خارجہ پالیسی ترتیب دینے والے سفارت کار ہنری کسنجر 100 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔

کسنجر کی موت کا اعلان ان کی کنسلٹنگ کے ادارے نے بدھ کو کیا لیکن موت کی وجوہات نہیں بتائیں۔

امریکہ کی ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر نکسن اور فورڈ دونوں کے ادوار میں کسنجر نے امریکہ کے وزیرِ خارجہ کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ دونوں ہی صدور کسنجر کی عالمی سیاست پر گہری نظر اور اقدامات کے معترف تھے۔ لیکن کسنجر کی سفارت کاری سے کئی تنازعات بھی جڑے ہیں۔

کسنجر کو بطور ایک اسکالر جانا جاتا ہے جنہیں 1973 میں امن کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔ قدامت پسند مفکر کسنجر کو ایک کامیاب سفارت کار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے امریکہ کے چین سے تعلقات کا آغاز کیا اور سوویت یونین کی پیش قدمی روکی۔

ویتنام کی جنگ ختم کرنے میں کردار ادا کرنے پر کسنجر اور ویتنام کے رہنما لےدک تھو کو مشترکہ طور پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔تاہم لے دک تھو نے نوبیل انعام لینے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ویتنام میں جنگ بندی معاہدے پر عمل نہیں ہو رہا۔

ہنری کسنجر کی بطور سفارت کار مشرقِ وسطیٰ میں بھی کئی کامیابیاں شمار کی جاتی ہیں جن میں 1975 میں اسرائیل اور مصر میں صحرائے سینا کے حوالے سے ہونے والا معاہدہ بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عربوں اور اسرائیل کے درمیان قیامِ امن کے لیے کوششیں کی تھیں جسے ’شٹل ڈپلومیسی‘ کا نام دیا جاتا رہا ہے۔

ہنری کسنجر کی دنیا کے مختلف حصوں میں کئی کامیابیوں کے باوجود انہیں ایک متنازع شخصیت قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ناقدین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے کمبوڈیا میں کارپٹڈ بمباری کے احکامات دیے تھے۔ اسی طرح انہوں نے 1971 میں پاکستان کے مشرقی حصے میں، جسے اب بنگلہ دیش کہا جاتا ہے، اس وقت کی فوجی حکومت کے اقدامات کی حمایت کی تھی۔

اسی طرح کسنجر نے ارجنٹائن میں ریاستی پالیسی کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں کو روکنے میں بہت کم کردار ادا کیا۔

ابتدائی سال

کسنجر 1923 میں جرمنی کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور 1938 میں انہوں نے 15 برس کی عمر میں امریکہ اس وقت ہجرت کی جب جرمنی کی نازی حکومت میں یہودی مظالم کا شکار ہوئے۔

کسنجر نے امریکی فوج میں بھی خدمات انجام دی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران انہوں نے امریکی فوج کے انفینٹری ڈویژن کے ہمراہ یورپ بھی گئے تھے۔

اپنی عمر کی 80 کی دہائی میں انہوں نے امریکہ کے اخبار ’شکاگو ٹریبیون‘ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب میں ان برسوں کو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اس پر فخر محسوس ہوتا ہے۔

ان کے بقول دوسری جنگِ عظیم وہ لڑائی تھی جس میں کوئی اخلاقی ابہام نہیں تھا۔

جنگ کے بعد ہنری کسنجر نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں یہاں سے انہوں نے ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی مکمل کیا اور اسی یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک ہو گئے۔

ہنری کسنجر کا خارجہ پالیسی پر نقطۂ نظر کسی شک و شبے کے بغیر نازی جرمنی سے فرار کے وقت ہی ترتیب پا گیا تھا۔ انہیں حقیقت پسندانہ سیاسی اقدامات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے جس کی وجہ ان کی سفارت کاری کے دوران اخلاقیات یا تاریخی حوالوں کے بجائے قابلِ عمل فیصلے قرار دیے جاتے ہیں۔

امریکہ کے اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے 1974 میں کسنجر سے ان کی سیاسی تحریروں میں مایوسی کے احساس اور سانحات پر سوال کیا۔ تو ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے آپ کو ایک دانا سیاست دان سے زیادہ تاریخ دان کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اور تاریخ دان کے طور پر آپ کو یہ شعور ہوتا ہے کہ ہر سماج جو کبھی موجود تھا اس کو زوال آیا ہے۔

کسنجر نے کہا تھا: "تاریخ داستان ہے ایسی کوششوں کی جو ناکام ہوئیں، ایسی آرزوؤں کی جو پوری نہ ہوسکیں، ایسی خواہشات کی جو پوری تو ہوئیں مگر جب ان کے نتائج سامنے آئے تو وہ توقعات کے برخلاف تھے۔"

وائٹ ہاؤس میں کردار

ہنری کسنجر نے ری پبلکن صدر آئزن ہاور، پھر ڈیموکریٹک صدور جان ایف کینیڈی اور لنڈن بی جانسن کی حکومتوں میں امریکہ کے مختلف اداروں کے لیے بطور مشیر کام کیا۔ تاہم صدر نکسن کے دور میں 1969 میں وہ باقاعدہ وائٹ ہاؤس کا حصہ بن گئے تھے۔

صدر نکسن کی حکومت میں کسنجر نے قومی سلامتی کے مشیر اور پھر وزیرِ خارجہ کا قلم دان سنبھالا۔ یہ دونوں اہم عہدے بیک وقت رکھنے والے وہ پہلی امریکی ہیں۔

کسنجر کے صدر رچرڈ نکسن سے قریبی تعلقات تھے۔ امریکی جریدے ’نیوز ویک‘ سے 2009 میں گفتگو میں انہوں نے کہا تھا "میں اور صدر نکسن جب واشنگٹن ڈی سی میں ہوتے تھے تو میں ان سے روز ملاقات کرتا تھا کیوں کہ میرا خیال تھا کہ یہ ضروری ہے کہ میں اور صدر ایک ہی لائن پر ہوں۔"

ہنری کسنجر صدر نکسن کے ہمراہ چین کے سفر کے دوران۔ (فائل فوٹو)
ہنری کسنجر صدر نکسن کے ہمراہ چین کے سفر کے دوران۔ (فائل فوٹو)

ان کے بقول میں خوش قسمت تھا کہ میرے دو صدور کے ساتھ، جن کے ساتھ میں نے کام کیا، انتہائی غیر معمولی قریبی تعلقات تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تاریخ دیکھے تو اس طرح کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

صدر نکسن کے 1972 میں چین کے غیر معمولی دورے اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماؤزے تنگ سے ملاقات سے قبل ہنری کسنجر نے پاکستان کی مدد سے چین کے دو دورے کیے تھے۔ اس کے بعد ہی چین کے آزادی کے اعلان کے 23 برس بعد دونوں ممالک میں باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے۔

ہنری کسنجر اور صدر نکسن نے مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے سوویت یونین کے ساتھ کشیدگی کو کم کیا اور ان کی کوششوں سے ہی سوویت یونین کے ساتھ اسٹریٹیجک آرمز لمیٹیشن ٹاکس (ای اے ایل ٹی) اور اینٹی بیلسٹک میزائل (اے بی ایم) کے معاہدے ہوئے۔

ہنری کسنجر کو متعدد بین الاقوامی ایوارڈز دیے گئے تھے جن میں 1973 میں امن کا نوبیل انعام، 1977 میں امریکہ کا سب سے اعلیٰ سویلین صدارتی ایوارڈ 'میڈل آف فریڈم' اور 1986 میں 'میڈل آف لبرٹی' شامل ہے۔

تنازعات

ہنری کسنجر کی کئی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ان کے متعدد اقدامات کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تنقید ویتنام میں کیے گئے اقدامات پر ہوتی ہے۔

کسنجر نے 1969 میں کمبوڈیا اور لاؤس میں امریکہ کی فوج کی بمباری کو خفیہ رکھا۔ اس بمباری کے سبب ویتنام کی جنگ میں شدت آئی تھی۔ اس سے متعلق انہوں نے نہ تو امریکہ کی کانگریس اور نہ ہی عوام کو آگاہ کیا تھا۔

صدر نکسن نے کسنجر یہ اختیار دیا تھا کہ وہ شمالی ویتنامیوں سے خفیہ مذاکرات کریں۔ ان مذاکرات کے بعد پیرس امن معاہدہ ہوا تھا۔ البتہ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے خفیہ مذاکرات کے سبب جنگ نے طوالت اختیار کر لی تھی۔

ہنری کسنجر کو دنیا بھر میں ہونے والے متعدد تنازعات پر بھی تنقید کا سامنا رہا ہے جن میں افریقہ کے ساحلی ملک انگولا میں خانہ جنگی اور جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں امریکہ کی مداخلت کے بعد فوج کے حکومت پر قابض ہونے میں کردار شامل ہیں۔

کسنجر کے خفیہ مذاکرات کے سبب ہی پیرس معاہدہ ہو سکا تھا۔ (فائل فوٹو)
کسنجر کے خفیہ مذاکرات کے سبب ہی پیرس معاہدہ ہو سکا تھا۔ (فائل فوٹو)

صدر نکسن کے 1974 میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے باوجود ہنری کسنجر اپنے منصب پر برقرار رہے۔ واٹر گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے صدر نکسن کو تو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا لیکن اس کے اثرات سے کسنجر محفوظ رہے۔

اس اسکینڈل میں یہ بھی سامنے آیا کہ کسنجر نے ایف بی آئی کو احکامات دیے تھے کہ وہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ارکان کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو ریکارڈ کرے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کمبوڈیا میں امریکی بمباری کی معلومات صحافیوں تک کیسے پہنچی۔

وائٹ ہاؤس کے بعد کی زندگی

وائٹ ہاؤس میں سفر ختم ہونے کے بعد ہنری کسنجر نے ایک بین الاقوامی مشیر اور لیکچرار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف کے طور پر سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ان کی آخری کتاب ’لیڈرشپ‘ (قیادت) اس وقت سامنے آئی جب ان کی عمر 99 برس تھی۔

وہ اکثر بین الاقوامی امور پر اظہارِ خیال کرتے رہتے تھے جب کہ اس حوالے سے ان کی تحریریں بھی شائع ہوتی تھیں۔

حالیہ مہینوں میں وہ اس وقت تنازع کی زد میں آئے جب مئی 2022 میں سوئٹزر لینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ یوکرین کو روس کے ساتھ قیامِ امن کے لیے اپنے ان علاقوں کو چھوڑ دینا چاہیے جو اس کے قبضے میں نہیں رہے۔

کیسجنر نے رواں برس جولائی میں چین کا دورہ کیا تھا۔ (فائل فوٹو)
کیسجنر نے رواں برس جولائی میں چین کا دورہ کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

انہوں نے کہا تھا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی ایک شرم ناک شکست یورپ کو عدم استحکام کا شکار کر سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG