خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں انسدادِ پولیو مہم میں شامل خاتون ہیلتھ ورکر کو سابق منگیتر نےفائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
پولیس حکام کے مطابق واقعہ پشاور کے علاقے داؤد زئی میں بدھ کے روز اس وقت پیش آیاجب لیڈی پولیو ہیلتھ ورکر اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھر جارہی تھی۔
فائرنگ کے نتیجے میں خاتون پولیو ورکر شدید زخمی ہوئی تھیں جنہیں لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دم توڑ گئیں جب کہ مبینہ قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ قاتل کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔
ہلاک ہونے والی خاتون کے والد اور مدعی کے مطابق مقتولہ کی ملزم کے ساتھ دو برس قبل منگنی ہوئی تھی جسے بعد میں ختم کر دیا گیا تھا اور ملزم کو اسی بات کا رنج تھا۔
ملزم کا تعلق ضلع نوشہرہ رسالپور سے ہے جس کی گرفتاری کے لیے پولیس نے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی ہے ۔تاہم اس کی گرفتاری تا حال عمل میں نہیں آئی۔
خیبر پختونخوا کے انسدادِپولیو حکام نے لیڈی پولیوہیلتھ ورکر کے قتل پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ واردات میں ملوث ملزمان کو سزا دی جائے گی۔
پولیو حکام نے بدھ کو جاری بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے اور وہ مقتولہ کے لواحقین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ حکام نے مقتولہ کے خاندان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
دوسری جانب پشاور کے علاقے بڈبیر میں جمعرات کو پولیو ٹیم پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہل کار زخمی ہو گیا۔ زخمی ہونے والا اہل کار تھانہ سربند کی حدود میں تلاوت شاہ پولیو ٹیم کی سی کیورٹی پر مامور تھا۔
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی جب کہ بٹہ تل اور اطراف میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
زخمی اہل کار کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس (ایچ ایم سی) اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ایس ایس پی آپریشن ہارون رشید نے ایچ ایم سی میں زخمی اہل کار کی عیادت کی ہے۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ ہفتے سے جاری انسداد پولیو مہم پر جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے دو مختلف علاقوں میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے دو حملے کیے تھے جس میں ایک پولیس اہل کار ہلاک ہوا تھا۔
انسداد ِپولیو حکام کے مطابق سال 2021 میں خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں میں مجموعی طور پر 12 افراد ہلاک ہوئے تھےجن میں سیکیورٹی اہل کاروں کے علاوہ خواتین کارکن بھی شامل ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے واقعات
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ سن 2019 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں غیرت کے نام پر قتل کیے جانے والے پانچ ہزار افراد میں سے ایک ہزار کا تعلق پاکستان سے ہے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی)کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں 2004 سے 2016 تک 15 ہزار 222 افراد غیرت کے نام پر قتل ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 2020 میں ہونے والے 511 واقعات میں سے 363 خواتین اور 148 مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئے تھے۔
پشاور میں انسداد پولیو مہم میں شامل خاتون کے قتل سے قبل سوات کے علاقے چارباغ میں فروری کے پہلے ہفتے میں کوہستان سے تعلق رکھنے والے ایک نئے شادی شدہ جوڑے کو رشتہ داروں نے قتل کیا تھا ۔
سوات پولیس کے مطابق پچھلے پانچ برسوں کے دوران 38 خواتین سمیت 70افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنان غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت سے مطالبات کرتے رہے ہیں۔ تاہم پشاور سے تعلق رکھنے والے وکیل طارق افغان کے مطابق جب تک مقدمات کی درست طریقے سے پیروی نہیں ہوتی اس وقت تک اس قسم کے جرائم پر قابو پانا ممکن نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں متاثرہ فریق ایک دوسرے کے خلاف مقدمات یا تو درج نہیں کراتے اور اگر مقدمات درج بھی کراتے ہیں تو اس کی پیروی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ملزمان عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔
دوسری جانب خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم 'عورت فاؤنڈیشن' سے منسلک صائمہ منیر کا کہنا ہے کہ جب تک سخت قوانین اور ان پر عمل در آمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا تب تک اس قسم کی واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل میں ملوث افراد کے خلاف تمام تر عدالتی کارروائی اور اس کی پیروی ریاست کی مدعیت میں ہونی چاہیے۔ اس قسم کے جرائم میں صلح کی روایت کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔