اتوار کو سپین کے دارالحکومت میڈرڈ کے قریب ایک فضائی اڈے پر جب تین ہسپانوی صحافی 10 ماہ تک شام میں یرغمال رہنے کے بعد وطن واپس پہنچے تو وہاں جذباتی مناظر دیکھے گئے۔
ہوزے مانوئیل لوپیز، انتونیو پامپلیگا اور اینگل ساستری جب وزارت دفاع کے طیارے سے باہر نکلے تو ان کا استقبال ان کے جذبات سے مغلوب مگر پُرمُسرت اہل خانہ نے کیا۔
اگرچہ ان کے اغوا اور رہائی کی تفصیلات واضح نہیں مگر سپین کے وزیراعظم مارینو رجوئے نے ’’اتحادی اور دوست ممالک‘‘ خصوصاً ترکی اور قطر کا ان کے رہائی میں مدد کے لیے شکریہ ادا کیا۔
مسلح افراد نے ان تینوں کو اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ گزشتہ جولائی حلب میں لڑائی پر خبریں دینے کے لیے ترکی سے سرحد پار کر کے شمالی شام میں داخل ہوئے تھے۔
صحافیوں نے سپین کے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ قید کے دوران ان سے اچھا سلوک کیا گیا مگر کہا کہ انتونیو پامپلیگا کو زیادہ وقت ان کے دیگر دو ساتھیوں سے علیحدہ رکھا گیا۔
ان میں سے کسی کو یقینی طور پر معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس کی تحویل میں رہے۔
یہ تینوں صحافی تجربہ کار جنگی نامہ نگار تھے اور ماضی میں شام سے رپورٹنگ کر چکے تھے۔
میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق شام دنیا میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک ہے۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران شام میں متعدد مغربی صحافیوں کو مختلف باغی گروہوں اور خود شامی حکومت کی طرف سے اغوا کیا جا چکا ہے۔