رسائی کے لنکس

سیالکوٹ: توہین مذہب کا مبینہ ملزم قتل، تین خواتین گرفتار


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تین مسلح خواتین نے فائرنگ کر کے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا ہے جس کے خلاف لگ بھگ 13 سال قبل توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے گاؤں نانگل مرزا میں بدھ کو پیش آیا۔

پسرور کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اعجاز حمید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقتول فضل عباس کے خلاف 2004ء میں توہین مذہب کے الزام کے تحت مقامی تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ ملک سے فرار ہو گئے تھے اور حال ہی میں وطن واپس آنے کے بعد اُنھوں نے مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی تھی۔

اعجاز حمید نے کہا کہ گزشتہ روز فضل عباس کے گھر پر تین برقع پوش خواتین آئیں جن کے نام آمنہ، رضیہ اور افشاں بتائے گئے ہیں۔

پولیس کے مطابق جیسے ہی فضل عباس ان خواتین کے سامنے آئے تو افشاں نے اُن پر فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان تینوں خواتین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر کے انہیں حراست میں لے لیا ہے۔

اعجاز حمید نے کہا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فضل عباس پر گولی افشاں نے چلائی۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس اقدام کا ابتدائی محرک مبینہ طور پر توہین مذہب کا معاملہ نظر آتا ہے تاہم ان کے بقول پولیس تفتیش میں دیگر پہلوؤں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور قانون کے مطابق اس جرم کی سزا موت ہے تاہم ملک میں ایسے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں ایسے الزامات کا سامنا کرنے والوں کے خلاف کسی قانونی کارروائی سے پہلے ہی انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا۔

انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق محض توہین مذہب کے الزام پر ساٹھ سے زائد افراد کو مشتعل افراد کے ہاتھوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔

دوسری طرف ایسے بھی واقعات سامنے آئے جن میں ذاتی دشمنی کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے۔

اسی تناظر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ ملک کے بعض سیاسی و سماجی حلقے اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان میں واقع ایک یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو ساتھی طلبا اور دیگر افراد نے مبینہ طور پر توہین مذہب سے متعلق مواد کی تشہیر پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG