رسائی کے لنکس

مسلم پس منظر والی تین خواتین کے لیے انسانی حقوق کا ایوارڈ


ایوارڈ پانے والوں میں ایغور سرگرم کارکن رابعہ قدیر بھی شامل ہیں
ایوارڈ پانے والوں میں ایغور سرگرم کارکن رابعہ قدیر بھی شامل ہیں

یہ ایوارڈ امریکی کانگریس کے سابق رکن ٹام لینٹوس کے نام سے منسوب ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے قتل عام میں بچ گئے تھے۔ لینٹوس انسانی حقوق کے بہت بڑے علمبردار تھے۔

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی تین خواتین آیان حرثی علی، ارشاد مانجی اور رابعہ قدیر کو جمعرات کو ان کی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کے اعتراف میں واشنگٹن میں لینٹوس ہیومن رائٹس پرائز سے نوازا گیا۔

یہ ایوارڈ امریکی کانگریس کے سابق رکن ٹام لینٹوس کے نام سے منسوب ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے قتل عام میں بچ گئے تھے۔ لینٹوس انسانی حقوق کے بہت بڑے علمبردار تھے۔

لینٹوس فاؤنڈیشن 2009 سے یہ سالانہ ایوارڈ دے رہی ہے۔ گزشتہ سالوں میں ایوارڈ پانے والوں میں دلائی لامہ اور چینی سرگرم کارکن چین گوانگ چینگ شامل ہیں۔

اس سال پہلی مرتبہ مسلم پس منظر سے تعلق رکھنے والی تین عورتوں نے یہ ایوارڈ حاصل کیا ہے۔

رابعہ قدیر

رابعہ قدیر کو چین کے شمال مغرب میں جبر کی شکار مسلمان آبادی میں ’ایغوروں کی ماں‘ کہا جاتا ہے۔

انہتر سالہ رابعہ ایک بہت غریب گھرانے میں پیدا ہوئیں مگر اس وقت وہ کروڑ پتی کاروباری شخصیت ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ایغوروں کے نمائندہ چہروں میں سے ایک ہیں۔ ایغور آبادی کئی دہائیوں سے چینی حکومت کے جبر و تشدد کا شکار ہے۔

رابعہ نے چینی سیاست میں کئی اہم عہدوں پر کام کیا مگر 1999 میں انہیں اپنے شوہر کو کچھ شائع شدہ مواد پہنچانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے شوہر اس وقت امریکہ میں ریڈیو فری ایشیا اور وائس آف امریکہ کے لیے کام کر رہے تھے۔ رابعہ پر الزام تھا کہ انہوں نے خفیہ مواد چینی سرزمین سے باہر ایک شخص کو پہنچایا۔

2005 میں انہیں چھوڑ دیا گیا جس کے بعد وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔ وہ اب بھی چینی مسلمانوں سے بدسلوکی پر بیجنگ کے حکام پر سخت تنقید کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’ایغور مسئلہ ایغوروں کا مسئلہ نہیں بلکہ چینی حکومت کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ چینی حکومت کی طرف سے ایغوروں کو بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم رکھنے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔‘‘

آیان حرثی علی

آیان حرثی علی 1969 میں صومالیہ میں پیدا ہوئیں اور بچپن میں انہیں جنسی اعضا کی قطع و برید کے عمل سے گزرنا پڑا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق عموماً پندرہ سال سے کم عمر کی 12 کروڑ 50 لاکھ لڑکیوں کو اس روایت کا نشانہ بنایا گیا۔

بعد میں آیان کی اپنے والد کے ایک دور پار کے رشتہ دار سے زبردستی شادی کر دی گئی۔ اس وقت انہوں نے بھاگ کر ہالینڈ جانے کا فیصلہ کیا۔

ہالینڈ میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے خاکروب اور مترجم کا کام کیا مگر بعد میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ ملک کی پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں۔ کئی سال سے انہوں نے اپنی زندگی انسانی حقوق کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی مذہب اور کلچر عورتوں سے بدسلوکی کو جائز نہیں سمجھتا۔

آیان حرثی
آیان حرثی

حرثی نے عورتوں پر جبر کے موضوع پر ایک فلم بنائی جس پر ان کے ساتھی فلمساز تھیو فان گوگ کو 2004 میں ایمسٹرڈیم میں قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے ان کی سینے پر ایک پرچا نتھی کیا تھا جس میں آیان کو قتل کی دھمکی دی گئی تھی مگر وہ اس دھمکی سے نہ ڈریں اور اپنا کام جاری رکھا۔

ارشاد مانجی

چھیالیس سالہ ارشاد مانجی یوگنڈا میں پیدا ہوئیں اور چار سال کی عمر میں کینیڈا آ گئیں۔ ان کے گھر میں تشدد کا ماحول تھا۔ چودہ سال کی عمر میں انہیں زیادہ سوال پوچھنے پر ایک مذہبی سکول سے نکال دیا گیا۔

انہوں نے اپنے طور پر اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔ تب انہیں احساس ہوا کہ ان کا مذہب بہت سے آزادیاں اور حقوق دیتا ہے اور وہ اس سے مفاہمت کر سکتی ہیں۔

کئی سال تک وہ مذہبی سوچ میں اصلاحات کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ مگر دنیا کے بہت سے حصوں میں ان کے کام کو پسند نہیں کیا گیا اور انہیں مارنے کی اتنی دھمکیاں مل چکی ہیں کہ انہیں اپنے اپارٹمنٹ میں بلٹ پروف کھڑکیاں لگوانی پڑیں۔ کئی تقریبات میں انتہا پسندوں نے آ کر ان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

مانجی نے کہا کہ یہ ایواڈ صرف اسلام کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے ہے۔

XS
SM
MD
LG