امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم کے ذرائع کے مطابق پٹرولیم کی ایک معروف کمپنی ایکسون موبل کے صدر اور چیف ایگزیکٹو ریکس ٹلر سن کا نام نئی امریکی انتظامیہ میں وزیرخارجہ کے اہم ترین عہدے کے لئے سامنے آیا ہے ۔
ٹلرسن ملک کے اعلی ٰ ترین سفارتی عہدے کے لیے بظاہر ایک ممتاز امیدوار کے طور پر ٹرمپ کے سابق نقاد اور 2012 کے ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رامنی کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں ۔
نیو یارک شہرکے سابق مئیر جیولیانی بھی مسٹر ٹرمپ کی شارٹ لسٹ میں موجود تھے لیکن انہوں نے جمعے کے روز نجی شعبے میں اپنی مصروفیات کے اپنا نام واپس لے لیا تھا۔
دنیا کی سب سے بڑی تجارتی کمپنی کے چیف ایکزیکٹیو ٹلرسن روس سے لین دین سمیت بین الاقوامی کاروبار کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
روس کی جانب سے نومبر کے صدارتی انتخاب کے نتیجے پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کے پس منظر میں ٹلر سن کے صدر ولادی میر پوٹن سے ذاتی تعلقات اور روس کے ساتھ ان کے کاروباری رابطے اس وقت سینٹ میں زیر بحث آسکتے ہیں جب ایوان بالا میں اس اہم عہدے پر ان کی توثیق کے لیے سماعت ہوگی۔
انتظامیہ کے سینیر عہدے داروں کے مطابق امریکی انٹیلی جینس ایجنسیاں یہ نتیجہ اخذ کر چکی ہیں کہ روس نے صرف امریکہ کے انتخابی عمل میں ہی مداخلت نہیں کی تھی جیسا کہ اس سے پہلے خیال کیا گیا تھا، بلکہ مسٹر ٹرمپ کو صدارتی عہدہ جیتنے میں مدد کےلیے صدارتی مہم کے آخری مرحلے میں بھی مداخلت کی تھی ۔ یہ نتیجہ کسی حد تک ان معلومات کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے کہ روس نے ڈیمو کریٹک تنظیموں سمیت ، ری پبلکن نیشنل کمیٹی کے کمپیوٹر نظاموں کو ہیک کیا تھا، لیکن وکی لیکس پر صرف ڈیمو کریٹس کے مواد کو افشا کیا تھا۔
ٹلرسن نے سابقہ وزیر خارجہ کنڈو لیز رائس اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی جانب سے سفارشات کے بعد منگل کے روز منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نجی طور پر ملاقات کی تھی۔
ایک عبوری عہدے دار نے کہا ہے کہ ٹرمپ مسٹر ٹلرسن کے انداز اور تجربے سے متاثر ہیں ۔
وزیر خارجہ کے لیے دوسرے امیدواروں میں اقوام متحدہ کے سابق سفیر جون بولٹن ، سینٹ کی خارج تعلقات کی کمیٹی کے سابق چئیرمین باب کراکر ، فورڈ موٹر کمپنی کے سابق سی ای او ایلن مولالی ا ور نیوی کے ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز سٹیوریڈس شامل ہیں