پاکستان کی نگران حکومت نے ہمسایہ ملک ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے 80 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
پاکستان کی کابینہ کی توانائی کی کمیٹی کی طرف سے جمعے کو پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت ایران کی سرحد سے پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں گوادار کی بندرگاہ تک یہ گیس پائپ لائن پچھائی جائے گی۔
پاکستان کی وزارتِ توانائی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ منصوبہ انٹر اسٹیٹ گیس سٹم کمپنی مکمل کرے گی اور اس کی تکمیل سے ملک کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پوری جائیں گی۔
پاکستان کی نگران حکومت نے ایران سے توانائی کی فراہمی کو محفوظ بنانے کے لیے گیس پائپ لائن کی تعمیر شروع کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس کے لیے وسائل سرکاری فنڈز سے فراہم کیے جائیں گے۔
پاکستان کو اس وقت توانائی کی کمی کا سامنا ہے اس کے علاوہ اپنی اقتصادی ترقی اور شرح نمو کو برقرار رکھنے کے لیے بھی توانائی کی فراہمی یقنی بنانا ضروری ہے۔
پاکستان نے پائپ لائن کے ذریعے ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے 2013 میں ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ لیکن ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے تاحال یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا اور پاکستان بھی اس منصوبے کی تکمیل سے گریز کرتا رہا ہے۔
شرمن سیکیورٹی سے وابستہ توانائی کے ماہر فرحان محمود کا کہنا ہے پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے اس وقت جیو اسٹرٹیجک صورتِ حال سازگار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مزید فنڈنگ حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔
تاہم ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی طرف سے گیس پائپ لائن کی تعمیر کا اعلان شاید تہران کو اعتماد دینا ہے کہ اسلام آباد اب بھی اس منصوبے سے متعلق سنجیدہ ہے تاکہ ایران اس پر ہرجانے کا مطالبہ نہ کرے۔
یاد رہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ 2013 میں طے پایا تھا لیکن ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے فریقین کے درمیان طے پانے والی ڈیڈلائن ختم ہو چکی ہیں۔
ایران کی طرف سے ایک بار پھر گیس پائپ لائن منصوبے کی ڈیڈ لائن میں ستمبر 2024 کی ڈیڈلائن دی جا چکی ہے۔ بصورتِ دیگر اطلاعات کے مطابق تہران پاکستان کو متبنہ کر چکا ہے کہ وہ منصوبہ مکمل نہ ہونے پر ہرجانے کے لیے بین الاقوامی ثالثی کی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ پیڑولیم کے اعلیٰ عہدے دار نے گزشتہ برس سینیٹ کی ایک کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ اگر پاکستان نے 2024 کے اواخر تک گیس پائپ لائن تعمیر نہ کی تو پاکستان کو 18 ارب ڈالر کے جرمانے کا سامنے کرنا پڑ سکتا ہے۔
عہدے دار نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا تھا کہ اس معاملے میں امریکہ سے بھی بات چیت کی جارہی ہے۔
فرحان محمود کہتے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ اس گیس پائپ لائن کی تعمیر میں جلد کوئی پیش رفت ہو گی۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آنے والی حکومت کی توجہ دیگر اقتصادی چیلنجز پر ہوگی جن میں عالمی مالیاتی ادارے سے معاملات طے کرنا بھی شامل ہے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے 1.2 ارب ڈالر قسط حاصل کرنے کے لیے آئندہ ماہ مذاکرات ہونے کی توقع ہے۔
فرحان محمود کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے پاکستان کی نئی حکومت کی توجہ توانائی کی کسی نئے منصوے پر کام کرنے کی بجائے گردشی قرض کم کرنے پر ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت توانائی کی اشد ضرورت ہے جب کہ اس کی مقامی گیس کی پیداوار ہر سال 10 فی صد کم ہورہی ہے۔ اس لیے پاکستان کو اپنے گیس کے وسائل اور درآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ان کے مطابق اس وقت پاکستان کے صنعتی شعبے کو گیس مہنگے داموں مل رہی اور اگر گیس پائپ لائن بنتی ہے تو پاکستان کے صنعتی شعبے کے لیے سستی گیس مل سکتی ہے کیوں کہ ایل این جی کے مقاملے میں گیس پائپ لائن سستی پڑتی ہے۔
’گیس کی خریداری بھی مسئلہ ہے‘
اقتصادی امور کے تجزیہ کار اور صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں کہ بنیادی معاہدے کے تحت 2015 میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن اس منصوبے کی تکمیل نہ ہونے کے باوجود اب تک ایران نے ہرجانے وغیرہ کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا ہے جس سے دو طرفہ تعلقات میں پائی جانے والی وسعت ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اپنی حدود میں پائپ لائن کے منصوبے کے لیے تعمیراتی کام کرچکا ہے اور اگر پاکستان اپنی طرف کے 80 کلومٹیر حصہ پورا کرے گا تو یہ مںصوبہ مکمل ہو جائے گا۔
خلیق کیانی کہتے ہیں اصل معاملہ یہ ہے کہ اگر ایران سے گیس خریدی جائے گی تو پاکستان اس کی ادائیگی کیسے کرے گا کیوں کہ ابھی تک پاکستان ایران کے درمیان بینکنگ چینل فعال نہیں ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے گیس پائپ لائن کی تعمیر کا انحصار اس پر بھی ہے کہ پاکستان کی آنے والی حکومت کے امریکہ کے ساتھ کیسے تعلقات ہوتے ہیں۔
فورم