گورنر بلوچستان نے نو منتخب اراکینِ صوبائی اسمبلی کی حلف برداری کے لیے 28 فروری کو اجلاس طلب کر لیا ہے تاہم ابھی تک وزارتِ اعلیٰ کے لیے کسی نام کا حتمی اعلان نہیں ہوسکا ہے۔
بلوچستان میں حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی حکومت سازی کے لیے معاہدے اور ملاقاتیں کررہی ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بعض حلقوں کے انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم ان جماعتوں نے گزشتہ روز کوئٹہ میں ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے 17 روزہ دھرنا ختم کرکے احتجاج کو پورے صوبے میں پھیلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
چار جماعتی اتحاد میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے اتحادیوں میں ملاقاتیں تو جاری ہیں تاہم تاحال وزارتِ اعلیٰ کے لیے کسی نام پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پنجاب اور سندھ میں وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہوچکا ہے جب کہ خیبرپختونخوا کے لیے تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار علی امین گنڈا پور کا انتخاب بھی جلد متوقع ہے۔ تاہم بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ کے لیے تاحال کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے۔
بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے بعد حکومت سازی میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کی حکومت کے فیصلے کوئٹہ کے بجائے اسلام آباد میں ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اس وقت پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری کے منتظر ہیں کہ وہ کب اور کس کو وزیر اعلیٰ بلوچستان کے لیے نامزد کریں گے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حکومت سازی میں کوئی تعطل نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات سردار بلند خان جوگیزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت سازی میں کسی قسم کی تاخیر ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مضبوط حکومت کی تشکیل کے لیے تمام اتحادیوں سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لیا جارہا ہے جس کی وجہ سے وقت لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں وزراتِ اعلیٰ کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل اہم سیاسی اور قبائلی شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں تاہم اب تک کسی ایک نام پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔
تین ناموں پر غور
اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بلوچستان میں وزارتِ اعلیٰ کے لیے تین شخصیات کے ناموں پر غور ہو رہا ہے۔ پی پی پی قیادت ایسا نام فائنل کرنا چاہتی ہے جسے تمام اتحادیوں کا اعتماد حاصل ہو۔
ذرائع کے مطابق ان تین ناموں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن اور رہنما میر صادق عمرانی، گزشتہ برس پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اور حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق صوبائی وزیر ظہور بلیدی کا نام شامل ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارتِ اعلیٰ کے لیے ایک اور نام علی حسن زہری کا بھی سامنے آیا ہے جنھیں سابق صدر آصف علی زرداری کا دستِ راست سمجھا جاتا ہے۔
تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ میر علی حسن زہری کی نشست پر ابھی تک ری کاؤنٹنگ نہیں ہوئی اور وہ ان میڈیا رپورٹس کی تردید کرتے ہیں۔
سید علی شاہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس بار بلوچستان میں وزرات اعلیٰ کے لیے زیادہ لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں اس لیے مقابلہ بھی سخت ہے۔
ان کے بقول، یہ ممکن ہے کہ زیادہ اور اہم سیاسی شخصیات کے نام سامنے آنے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو وزیرِ اعلیٰ کی نامزدگی میں مشکلات کا سامنا ہو۔
سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس بار وزارت اعلیٰ کا نام پہلے سے طے شدہ نہیں ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی صوبے کی اکثریتی جماعت بن چکی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن
گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے بعد پارٹی پوزیشن واضح ہو گئی۔
الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی 17 نشستیں ہیں۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ نون کی 16 جبکہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کی کل 12 نشستیں ہیں۔
اس کے علاوہ بلوچستان عوام پارٹی(بی اے پی) کو پانچ، نیشنل پارٹی چار جب کہ اے این پی کو تین نشستیں ملی ہیں۔
جماعتِ اسلامی، حق دو تحریک، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست حاصل کی ہے۔
بلوچستان اسمبلی کی تین عام نشستوں پر ہونے والے انتخاب کے نتائج کا اعلان تاحال نہیں ہوسکا ہے۔
بلوچستان میں کل اراکین اسمبلی کی تعداد 65 ہے جبکہ حکومت سازی کے لیے 33 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے۔
’کمزور حکومت‘
ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور بلوچستان عوامی پارٹی میں حکومت سازی کے لیے ہونے والی بات چیت میں طے کیا گیا ہے کہ وزارتِ اعلیٰ پاکستان پیپلز پارٹی کو ملے گی اور سینیر صوبائی وزیر پاکستان مسلم لیگ(ن) سے ہوگا۔
گورنر بلوچستان اور اسپیکر کے عہدے بھی مسلم لیگ(ن) کو دیے جائیں گے۔
تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تین اتحادی جماعتوں کی بننے والے حکومت مستقبل میں ایک کمزور حکومت نظر آتی ہے۔
ان کے بقول، آگے چل کر اس اتحاد میں بلوچستان میں وزارتوں، ڈویلپمنٹ فنڈز کی تقسیم اور ٹرانسفر پوسٹنگز پر بہت زیادہ اختلافات سامنے آنے کے امکان ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ اتحاد میں شامل جماعتیں نظریاتی طور پر بہت کمزور ہیں اور ان میں زیادہ تر مضبوط شخصیات شامل ہیں جب کہ بلوچستان میں شخصیات اور قبائلی رہنما ایک دوسرے کو ماننے کے لیے تیار ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں 28 فروری کو نو منتخب اراکین اسمبلی کی حلف برداری ہوگی۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جہاں صوبے میں بننے والا نیا سیاسی اتحاد کمزور ہے وہیں قوم پرست جماعتوں کی جانب سے اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاجی تحریک سے نئی قائم ہونے والی حکومت کو ابتدا ہی میں چلینجز اور مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
فورم