بزرگوں کے تجربات بچوں کی پرورش کرنے میں ہمیشہ سےمددگار ثابت ہوئے ہیں اور ساتھ ہی بچوں کے ماہر ڈاکٹر اور اساتذہ کے مشورے اس فرض کی ادائیگی میں والدین کے کام آتے ہیں۔ ادھر، کچھ ترقی یافتہ ملک، جن میں برطانیہ بھی شامل ہے، حکومت کی جانب سے والدین کو مثبت رویہ اپنانے کا پابند بنایا گیا ہے، جہاں بچوں کی تربیت کرنے میں سزا کا حربہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں 'لندن اسکول آف اکنامکس' کی ایک تجزیہ کار نے کہا ہے کہ بچوں کی بہتر تربیت کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر سے دادی اور نانی کے آزمائے ہوئے مشوروں کی ضرورت ہے۔
فیملی لا کی ماہر، ہیلن رییس اپنی رپورٹ میں کہتی ہیں کہ غلطیاں کرنے پربچوں کو سزا نہ دینے کا رویہ بچوں کی تربیت کو متاثر کر رہا ہے، تو دوسری جانب، ہر چھوٹی بات پر والدین سے تعریف وصول کرنے والے بچے کی شخصیت کو بے جا ستائش نقصان پہنچا رہی ہے، جس سے بچے کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھنے کا موقع نہیں مل رہا، جبکہ، اُن کے خیال میں، سزا بچے کو اپنی غلطی کا احساس دلاتی ہے۔
رییس کہتی ہیں کہ بچوں کی تربیت کرنے کے لیے دیا جانے والا حکومتی فارمولا 'پازیٹیو پیرنٹنگ' مفروضے پر مبنی ہدایت نامہ ہےجس کے مطابق، ایک مثبت ماحول میں پرورش پانے والے بچے میں بری عادتیں پیدا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے منفی پہلو کو نظر انداز کرکےصرف مثبت پہلو کو سراہنے کا رویہ والدین کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے،جہاں وہ صرف اس مفروضے کی کامیابی کی امید کر سکتے ہیں۔
انھوں نےحکومت کی جانب سے والدین کو دی جانے والی معلومات (اچھے والدین بننےکا کتابچہ) پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ والدین ہر وقت خود کو اچھے والدین کی صورت میں پیش نہیں کر سکتے۔ انھیں بعض اوقات بچوں کو'نا'بھی کہنا پڑتا ہے جس کی بچوں کو عادت ہونی چاہیئے،جبکہ اس ہدایت نامے پر عمل کرنا والدین کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بنتا جا رہا ہے اور والدین اس کشمکش میں بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔
'دا جرنل ایتھیکس اینڈ ایجوکیشن' میں شائع ہونے والی رپورٹ میں مسسز رییس نے تجویز پیش کی ہے کہ بچوں کی تربیت کا معاملہ والدین کی سمجھ بوجھ پر چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے بچے کی فطرت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔انھیں خود ہی طے کرنا ہوگا آیا انھیں اپنے بچے کو سزا دینی چاہیئے یا نہیں۔ اس سلسلے میں ان پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیئے۔ جبکہ، ان کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ نرمی دراصل بچوں کی شخصیت میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہے، جس کا الزام والدین کی تربیت پر لگایا جاتا ہے۔ بلکہ، کئی بار ایسے والدین کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے جو اپنے بچوں کو بہت زیادہ نہیں سراہتے۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے چلڈرن اینڈ یوتھ کے وائس چیرمین ایرک ہیسٹر کہتے ہیں کہ والدین کو سمجھنا ہوگا کہ بچوں کی بہتر تربیت کرنے کے لیے دنیا میں ان سے زیادہ مناسب شخص کوئی نہیں ہے۔
گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں 'لندن اسکول آف اکنامکس' کی ایک تجزیہ کار نے کہا ہے کہ بچوں کی بہتر تربیت کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر سے دادی اور نانی کے آزمائے ہوئے مشوروں کی ضرورت ہے۔
فیملی لا کی ماہر، ہیلن رییس اپنی رپورٹ میں کہتی ہیں کہ غلطیاں کرنے پربچوں کو سزا نہ دینے کا رویہ بچوں کی تربیت کو متاثر کر رہا ہے، تو دوسری جانب، ہر چھوٹی بات پر والدین سے تعریف وصول کرنے والے بچے کی شخصیت کو بے جا ستائش نقصان پہنچا رہی ہے، جس سے بچے کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھنے کا موقع نہیں مل رہا، جبکہ، اُن کے خیال میں، سزا بچے کو اپنی غلطی کا احساس دلاتی ہے۔
رییس کہتی ہیں کہ بچوں کی تربیت کرنے کے لیے دیا جانے والا حکومتی فارمولا 'پازیٹیو پیرنٹنگ' مفروضے پر مبنی ہدایت نامہ ہےجس کے مطابق، ایک مثبت ماحول میں پرورش پانے والے بچے میں بری عادتیں پیدا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے منفی پہلو کو نظر انداز کرکےصرف مثبت پہلو کو سراہنے کا رویہ والدین کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے،جہاں وہ صرف اس مفروضے کی کامیابی کی امید کر سکتے ہیں۔
انھوں نےحکومت کی جانب سے والدین کو دی جانے والی معلومات (اچھے والدین بننےکا کتابچہ) پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ والدین ہر وقت خود کو اچھے والدین کی صورت میں پیش نہیں کر سکتے۔ انھیں بعض اوقات بچوں کو'نا'بھی کہنا پڑتا ہے جس کی بچوں کو عادت ہونی چاہیئے،جبکہ اس ہدایت نامے پر عمل کرنا والدین کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بنتا جا رہا ہے اور والدین اس کشمکش میں بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔
'دا جرنل ایتھیکس اینڈ ایجوکیشن' میں شائع ہونے والی رپورٹ میں مسسز رییس نے تجویز پیش کی ہے کہ بچوں کی تربیت کا معاملہ والدین کی سمجھ بوجھ پر چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے بچے کی فطرت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔انھیں خود ہی طے کرنا ہوگا آیا انھیں اپنے بچے کو سزا دینی چاہیئے یا نہیں۔ اس سلسلے میں ان پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیئے۔ جبکہ، ان کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ نرمی دراصل بچوں کی شخصیت میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہے، جس کا الزام والدین کی تربیت پر لگایا جاتا ہے۔ بلکہ، کئی بار ایسے والدین کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے جو اپنے بچوں کو بہت زیادہ نہیں سراہتے۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے چلڈرن اینڈ یوتھ کے وائس چیرمین ایرک ہیسٹر کہتے ہیں کہ والدین کو سمجھنا ہوگا کہ بچوں کی بہتر تربیت کرنے کے لیے دنیا میں ان سے زیادہ مناسب شخص کوئی نہیں ہے۔