مصروف سڑکیں، تیز رفتار ڈرائیور، نصابی سرگرمیاں اور انجان افراد کا خطرہ۔ یہ والدین کے کچھ ایسے خوف ہیں جن کی وجہ سے وہ نہیں چاہیتے کہ ان کا بچہ گھر سے باہر گلی یا محلے کے میدان میں جا کر کھیلے۔
ایک برطانوی تنظیم، جو بچوں کو کھیلوں کی جانب متوجہ کرنے کی مہم چلا رہی ہے، حالیہ دنوں میں والدین میں بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے سے متعلق پائے جانے والے خدشات کو جاننے کے لیے ایک سروے کیا۔
'میک ٹائم ٹو پلے' تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں والدین کا خوف اس قدر بڑھ گیا ہے کہ بچوں کو باہر کی کھلی فضا میں بھاگ دوڑ اور اچھل کود والی مشقوں سے دور کر دیا ہے۔
سروے میں 2000 والدین سے ان کی رائے معلوم کی گئی، جن کے بچوں کی عمریں 15
برس سے کم تھیں۔
دو تہائی والدین یا 63 فیصد سروے کے شرکاٴ کی رائے میں ان کے دور کی نسبت موجودہ زمانے میں بچوں کا گھر سے باہر جا کر کھیلنا زیادہ خطرناک ہے۔
57 والدین نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ تیز رفتار ٹریفک ان کے نزدیک سب سے برا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے وہ نہیں چاہتے کہ بچوں کو گھر سے باہر بھیجا جائے۔
55 فیصد والدین کی نظر میں انجان لوگوں کا خوف انھیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں، ۔جبکہ 39 فیصد والدین اس بات پر مصر نظر آئے کہ انھیں بچوں کو باہر بھیجنے سے اس لیے خوف آتا ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے بچے پر نظر نہیں رکھ سکتے۔
کچھ والدین نے کہا کہ انھیں مجرمانہ حرکات و سکنات رکھنے والے افراد کی صحبت کا خوف ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے تو 19فیصد والدین نہیں چاہتے کہ ان کا بچہ پڑھائی کے بجائے کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرے۔
سروے میں شامل 15 فیصد والدین کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کو ان سے زیادہ باہر جا کر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
تاہم، 38 فیصد نے یہ اعتراف کیا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے بچوں کو گھر کی چار دیواری میں مقید رہنا پڑتا ہے اور انھیں جسمانی ورزشیں کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کھلے میدانوں اور پارکوں میں کھیلتے ہوئے بچوں کی تعداد ان بچوں سے بہت کم ہوتی ہے جو گھر میں ویڈیو گیمز اور کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر لنڈا پاپاڈوپولس نے سروے کے نتیجے کے بارے کہا کہ والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی نشوونما کے لیے ہر روز پھل اور سبزیاں کھانا ضروری ہے۔ لیکن، والدین کو سمجھنا ہوگا کہ بچوں کی جسمانی مشقت اور اچھل کود بھی ان کی نشوونما کے لیے انتہائی مفید ہے۔
انھوں نے والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ والدین ہر وقت اپنے بچے کی بھلائی کے لیے ہی سوچتے ہیں۔ لیکن، کچھ وقت کے لیے بچے کو اپنے دوستوں کے ہمراہ روزانہ گھر سے باہر بھیجنا بچوں میں بہت سی مثبت تبدیلیاں پیدا کر سکتا ہے جو نئے نئے دوست بنائے گا اور اردگرد کی دنیا کے بارے میں بھی جان پائے گا، جس کے باعث اس کے اندر خوداعتمادی پیدا ہوگی۔
ایک برطانوی تنظیم، جو بچوں کو کھیلوں کی جانب متوجہ کرنے کی مہم چلا رہی ہے، حالیہ دنوں میں والدین میں بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے سے متعلق پائے جانے والے خدشات کو جاننے کے لیے ایک سروے کیا۔
'میک ٹائم ٹو پلے' تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں والدین کا خوف اس قدر بڑھ گیا ہے کہ بچوں کو باہر کی کھلی فضا میں بھاگ دوڑ اور اچھل کود والی مشقوں سے دور کر دیا ہے۔
سروے میں 2000 والدین سے ان کی رائے معلوم کی گئی، جن کے بچوں کی عمریں 15
برس سے کم تھیں۔
دو تہائی والدین یا 63 فیصد سروے کے شرکاٴ کی رائے میں ان کے دور کی نسبت موجودہ زمانے میں بچوں کا گھر سے باہر جا کر کھیلنا زیادہ خطرناک ہے۔
57 والدین نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ تیز رفتار ٹریفک ان کے نزدیک سب سے برا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے وہ نہیں چاہتے کہ بچوں کو گھر سے باہر بھیجا جائے۔
55 فیصد والدین کی نظر میں انجان لوگوں کا خوف انھیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں، ۔جبکہ 39 فیصد والدین اس بات پر مصر نظر آئے کہ انھیں بچوں کو باہر بھیجنے سے اس لیے خوف آتا ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے بچے پر نظر نہیں رکھ سکتے۔
کچھ والدین نے کہا کہ انھیں مجرمانہ حرکات و سکنات رکھنے والے افراد کی صحبت کا خوف ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے تو 19فیصد والدین نہیں چاہتے کہ ان کا بچہ پڑھائی کے بجائے کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرے۔
سروے میں شامل 15 فیصد والدین کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کو ان سے زیادہ باہر جا کر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
تاہم، 38 فیصد نے یہ اعتراف کیا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے بچوں کو گھر کی چار دیواری میں مقید رہنا پڑتا ہے اور انھیں جسمانی ورزشیں کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کھلے میدانوں اور پارکوں میں کھیلتے ہوئے بچوں کی تعداد ان بچوں سے بہت کم ہوتی ہے جو گھر میں ویڈیو گیمز اور کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر لنڈا پاپاڈوپولس نے سروے کے نتیجے کے بارے کہا کہ والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی نشوونما کے لیے ہر روز پھل اور سبزیاں کھانا ضروری ہے۔ لیکن، والدین کو سمجھنا ہوگا کہ بچوں کی جسمانی مشقت اور اچھل کود بھی ان کی نشوونما کے لیے انتہائی مفید ہے۔
انھوں نے والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ والدین ہر وقت اپنے بچے کی بھلائی کے لیے ہی سوچتے ہیں۔ لیکن، کچھ وقت کے لیے بچے کو اپنے دوستوں کے ہمراہ روزانہ گھر سے باہر بھیجنا بچوں میں بہت سی مثبت تبدیلیاں پیدا کر سکتا ہے جو نئے نئے دوست بنائے گا اور اردگرد کی دنیا کے بارے میں بھی جان پائے گا، جس کے باعث اس کے اندر خوداعتمادی پیدا ہوگی۔