رسائی کے لنکس

افغانستان میں ایرانی مداخلت بڑھ رہی ہے: امریکی کمانڈر


جنرل فرینک مکنزی
جنرل فرینک مکنزی

ایسے میں جب مشرق وسطیٰ بھر میں ایران خطرے کی علامت بن چکا ہے، ایک اعلیٰ امریکی کمانڈر نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایرانی سرگرمیوں میں تیزی آ چکی ہے، جس سے وہاں تعینات فوج کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے لیے چوٹی کے امریکی کمانڈر، میرین جنرل فرینک مکنزی نے یہ بات اس ہفتے اپنے دورہ افغانستان کے دوران کہی۔ انھوں نے اپنے ہمراہ سفر کرنے والے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ایرانی ایما پر مداخلت کا ’’ایک پریشان کن رجحان‘‘ رونما ہوا ہے۔

مکنزی نے کہا کہ ’’ایران ہمیشہ سے افغانستان میں کوئی نہ کوئی شرارت کرتا آیا ہے۔ لیکن، اب شاید وہ اپنے طفیلیوں کے ذریعے امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کے خلاف موقع کی تلاش میں ہے‘‘۔

پراکسی لڑائی کے خدشات سے متعلق سوال پر، انھوں نے کہا کہ ’’جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ہمیں اس کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے‘‘۔

مکنزی کے اس انتباہ سے محض چند ہی ہفتے قبل ایران نے عراق کے دو فوجی اڈوں پر دو درجن بیلسٹک میزائل داغے تھی، جہاں امریکی افواج تعینات ہیں۔ ان سے کوئی ہلاکت تو نہیں ہوئی، تاہم، چند درجن امریکی فوجیوں کے اعصاب متاثر ہوئے۔ یہ حملہ امریکی فوج کی جانب سے ایرانی القدس فورس کے جنرل، قاسم سلیمانی کے خلاف عراق میں کیے گئے ڈرون حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔

انھوں نےکہا کہ افغانستان میں ایران طویل عرصے سے شیعہ ملیشیاؤں کو رقوم، حمایت اور اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے۔

ایران ایک ایسے وقت میں جب حالیہ برسوں میں شام کی لڑائی میں شدت آئی، وہ صدر بشار الاسد کی مدد کے لیے افغانستان اور خطے کے دیگر علاقوں سے بڑے پیمانے پر شیعہ افراد کو شام روانہ کرتا رہا ہے۔

اب جب کہ شام میں لڑائی تھم گئی ہے، ان میں سے ہزاروں افراد واپس جا چکے ہیں۔

افغان حکام نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اب بھی ملیشیا کے عناصر کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور انھیں منظم کر رہا ہے؛ اور انہی عناصر سے فوجوں، یہاں کے مکینوں اور حکومت کو خدشات لاحق ہیں۔

سہ روزہ دورہ افغانستان کے بعد، مکنزی کابل سے روانہ ہوئے۔ انھوں نے کہا ہے کہ صورت حال کا مشاہدہ کرنے اور درپیش مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے، اتحاد افغان حکومت سے مل کر کام کر رہا ہے۔

دریں اثنا، طالبان کے اتحاد کے خلاف حملوں میں بھی شدت آ گئی ہے، جب کہ باغی گروپ کے ساتھ امن سمجھوتا طے کرنے کے لیے امریکہ اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG