یونان میں بدھ کو پہلی بار ایک خاتون کو صدر منتخب کرلیا گیا۔ قطرینہ اسکولروپلو ہائی کورٹ کی جج رہی ہیں۔ قانون سازوں نے انھیں واضح اکثریت سے منتخب کیا۔
اپنی کامیابی کے بعد باضابطہ رسمی کلمات میں صدر اسکولروپلو نے کہا کہ ان کی کوشش رہے گی کہ قومی معاملات میں ’’ممکنہ حد تک کثرت رائے‘‘ سے فیصلے کیے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں مشکل صورت حال اور چیلنجز درپیش ہیں جن میں مالی بحران، موسمیاتی تبدیلی، آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور اس کے باعث انسانی بحران، امن و امان میں بگاڑ اور ہر طرح کی عدم مساوات شامل ہے۔‘‘
وزیراعظم کریاکوس مستوتاکس نے قطرینہ اسکولروپلو کو غیر جانبدار امیدوار کے طور پر نامزد کیا تھا اور کہا تھا کہ انھیں تمام حلقوں کی وسیع تر حمایت حاصل ہوگی۔
صدر منتخب ہونے کے لیے 200 ووٹ درکار تھے جبکہ قطرینہ اسکولروپلو کے حق میں 261 اور مخالفت میں 33 ووٹ پڑے۔ یونان میں صدر کا عہدہ علامتی ہوتا ہے۔
یونان میں تاریخی طور پر اعلیٰ عہدوں پر خواتین کم ہی ہوتی ہیں۔ مستوتاکس کو اس تنقید کا سامنا رہا کہ جولائی 2019ء میں عام انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کی کابینہ میں تقریباً تمام وزیر مرد تھے۔ موجودہ کابینہ میں 18 مرد اور صرف ایک خاتون وزیر ہیں۔
صدر کے انتخاب کے بعد تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم مستوتاکس نے قطرینہ اسکولروپلو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلند پائے کی قانون داں اور نظام انصاف کی نمایاں شخصیت ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ انھوں نے ایک ایسی امیدوار نامزد کی تھیں جو یونان کے نوجوانوں کو متحد کرنے کی علامت رہی ہیں۔ ان کے انتخاب سے یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ تمام اہم معاملات میں یونان کے تمام لوگ آئندہ بھی یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے۔‘‘