چین کی حکومت کے اہم نمائندے اور صدر شی جن پنگ کے قریب سمجھے جانے والے یانگ جیچی کی اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے انتہائی طاقت ور سیاسی ونگ ’پولٹ بیورو‘ کے بھی رکن بھی ہیں۔یانگ جیچی کے دورے کو دونوں ممالک اور خطے کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
چین کے وفد نے وزیرِ اعظم شہباز شریف ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں، جن میں حکام کے مطابق دوطرفہ امور پر بات چیت کی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے پولٹ بیورو کے رکن اور سی پی سی کے خارجہ امور کمیشن کے ڈائریکٹر یانگ جیچی کا دورۂ پاکستان کرونا وبا کے بعد بیجنگ سے کسی بھی اعلیٰ سطح کی حکومتی شخصیت کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔
بدھ کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد جاری بیان کے مطابق یانگ جیچی نے آرمی چیف سے ملاقات میں پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر سفارتی تعاون میں مزید بہتری کے لیے کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
پاکستان کا دورہ کرنے والے یانگ چیجی کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی ہے، جس میں نائب وزرا برائے خارجہ امور و تجارت، چائنا انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کوآپریشن ایجنسی کے نائب چیئرمین، قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل بھی شامل ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کچھ عرصے کے واقعات کی وجہ سے اعتماد کی کمی ہے اوردورہ میں ہونے والی ملاقاتین دونوں ممالک کے درمیان اختلافات اور تحفظات دور کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر قمر چیمہ نے وائس آف امریکہ سےگفتگو میں کہا کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کو دور کرنے کے لیے ہے۔ پاکستان میں جب سے نئی حکومت آئی ہے، دونوں ممالک کے درمیان کوئی بھی اعلیٰ سطح کا رابطہ نہیں ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی دوران برکس اجلاس میں پاکستان کو بطور مبصر بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان قرضوں کے معاملے پر چین کے ساتھ بات چیت کرنے کا خواہاں ہے۔ سی پیک منصوبے بھی رکے ہوئے ہیں لیکن ان تمام معاملات میں سب سے اہم معاملہ اعتماد کی کمی کا ہے جس کے لیے چینی حکام پاکستان آئے ہیں۔
ڈاکٹر قمر چیمہ کے مطابق چینی حکام اسلام آباد کے سیکیورٹی معاملات پر خوش نہیں ہیں۔ چینی حکام کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے لوگوں کے تحفظ کے بارے میں پریشان ہیں۔ عالمی سطح پر چین کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ اپنے عوام کے تحفظ کو اس قدر سنجیدگی سے نہیں لیتے، جیسےمغربی ممالک اپنے شہریوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ چین اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے چین گزشتہ کچھ عرصے میں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ پر حملے کے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے۔اس کے علاوہ چین پاکستان میں ضلعے کی سطح پر فراہم کی گئی سیکیورٹی کے نظام سے مطمئن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایڈوائزری کونسل نے سی پیک کے بعض منصوبوں پر بات کی ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی اب تک چین نہیں گئے اور چین کی طرف سے بھی سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو مغربی ممالک سے اسلحے کی خریداری اور ٹیکنالوجی پر بندش کا سامنا ہے۔ ایسے میں چین ہی پاکستان کا ساتھ دے سکتا ہے۔
یانگ جیچی کے بارے میں ڈاکٹر قمر چیمہ نے بتایا کہ وہ چین کی حکمران جماعت کے طاقتور سیاسی ونگ پولٹ بیورو کے رکن ہیں، جس میں صرف سات ارکان ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ سب چینی صدر شی جن پنگ کے بھی بہت قریبی سمجھتے جاتے ہیں اور ان کے پاکستان کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان موجود سرمہری ختم ہو سکتی ہےجب کہ اعتماد سازیبھی ہو سکے گی، جس کے نتیجہ میں امکان ہے کہ آئندہ کچھ دن میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پھر سے بہتر ہوسکیں گے۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے استاد اور سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ظفرجسپال نے وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین سے آنے والے اعلیٰ سطح کے وفد نے پاکستان کا جو دورہ کیا اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ دونوں کے درمیان معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر جسپال نے کہا کہ برکس اجلاس میں پاکستان کو مدعو نہ کرنا اختلاف کا باعث بنا لیکن اس دورے سے بہتری کی امید ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کو پاکستان کو بعض معاملات پر تحفظات ہیں جن میں سرفہرست معاملہ چین کے پاکستان میں موجود شہریوں کی سیکیورٹی کا ہے۔
ان کے مطابق کراچی یونیورسٹی حملے کے بعد چینی شہریوں کو بعض تحفظات ہیں، اس کے علاوہ سی پیک منصوبے بھی ہیں جن میں کئی اسٹیک ہولڈرز ہیں اور ان کے آپس میں اختلافات ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ اس کے لیے اگر کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے جس سے اختلافی امور حل ہوسکیں تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔