امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعرات کے روز چین کے چوٹی کے سفارت کار وانگ یی سے انڈونیشیا میں ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات اسی سلسلے کا حصہ ہے جسے واشنگٹن دو بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ کم کرنے کی جاری کوشش قرار دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ بلنکن نے وانگ سے جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے اجلاس کے موقعے پرملاقات کی۔ جس کا مقصد تھا کہ باہم رابطے کے ذرائع کھلے رکھے جائیں تاکہ وسیع امور کے گرد امریکی مفادات کی وضاحت ہو سکے اور غلط فہمی اور غلط اندازوں کے خطرے کو کم کرتے ہوئے باہم مسابقت کا ذمے دارانہ طریقے سے خیال رکھا جا سکے۔
ملر نے ایک بیان میں کہا،"دنیا کو چین اور امریکہ سے یہی توقع ہے۔"
توقع کی جا رہی ہے کہ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف بھی آسیان بات چیت میں حصہ لیں گے۔
ملر نے کہا کہ بلنکن اور وانگ نےدو طرفہ، علاقائی اور عالمی امور پر, جن میں وہ معاملات بھی شامل تھے جن میں یا تو دونوں ملکوں میں اختلافات ہیں یا وہ جن پر باہم تعاون کا امکان موجود ہے، کھل کر گفتگو کی ہے۔
ملر کے الفاظ میں،"بلنکن نے آبنائے تائیوان کے آر پارامن اور استحکام برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔"
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ملر نے کہا کہ بلنکن نے جن کی گزشتہ ماہ بیجنگ میں وانگ سے ملاقات ہوئی تھی، " ان پر واضح کیا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک کھلے، اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظام کے لیے اپنے نظریے کو فروغ دے گا۔"
بلنکن کی وانگ سے ملاقات، بیجنگ سے تناؤ کے شکار,تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے واشنگٹن کی تازہ ترین کوشش ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تازہ ترین تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب امریکہ کے ان کلاسیفائیڈ ای میل کے نظام میں گھس کر امریکی محکمہ خارجہ اور دیگر تنظیموں کے کچھ اکاؤنٹ کو ہیک کرنے کی کوشش کے لیے چین کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو موردِ الزام ٹھرایا گیا کہ انہوں نے ممکنہ طور پر ایک ماہ طویل کوشش کے ذریعے اس سسٹم کو ہیک کیا۔
سب سے پہلے اس کی اطلاع مائیکرو سافٹ نے منگل کے روز دی اور اپنی ای میل سروس آؤٹ لُک کو ہیک کرنے کی اس چینی کوشش کو اسٹارم۔ 0558 کا نام دیا۔
بلنکن اور وانگ کی میٹنگ کے بعد محکمہ خارجہ کے ایک سینئیر عہدیدار نے کہا کہ وہ خاص تفصیل میں جائے بغیر یہ کہیں گے کہ ،" ہم نے تسلسل سے یہ واضح کیا ہے کہ ایسا کوئی بھی عمل جو امریکی حکومت، امریکی کمپنیوں، امریکی شہریوں کو ہدف بناتا ہے، ہمارے لیے گہری تشویش کا باعث ہے اوریہ کہ ہم ذمے داروں کی جواب دہی کے لیے مناسب اقدام کریں گے۔ اور وزیرِ خارجہ نے آج رات بھی یہ واضح کیا ہے۔"
جاری کشیدگیوں کے باوجود امریکہ اور چین کے اعلیٰ عہدیداروں کی بات چیت میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کے چین کے دورے کے بعد امریکی وزیرِ خزانہ جینٹ ییلن نے بیجنگ میں چینی عہدیداروں سے بات چیت کی اور اب 16 جولائی کو ماحولیات کے امریکی ایلچی جان کیری چار روزہ دورے پر چین روانہ ہوں گے۔
جمعرات اور جمعے کو آسیان کی میٹنگز میں توقع ہے کہ توجہ میانمار کے بحران اور جنوبی بحیرہ چین سے متعلق کشیدگیوں پر مرکوز رہے گی۔
میانمار کے فوجی حکمرانوں نے 2021 میں آنگ سن سوچی کی حکومت ختم کرنے کے بعد جس پانچ نکاتی امن منصوبے پر رضامندی ظاہر کی تھی اس پر عملدرآمد نہیں کیا ہے۔
آسیان کے وضع کردہ امن منصوبے میں تشدد کو فوری روکنا، انسانی ہمدردی کی امداد کی فوری ترسیل اور امن مزاکرات شامل تھے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق میانمار میں تشدد کے باعث دس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
(وائس آف امریکہ کی سینئیر رپورٹر سنڈی سین کی اس رپورٹ میں کچھ معلومات اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے بھی لی گئی ہیں)