امریکہ اور روس کے وزرائے خارجہ نے آئس لینڈ کے دارالحکومت ری کیا وِک میں ہونے والے آرکٹک کونسل وزارتی اجلاس کے موقعے پر پہلی بالمشافہ ملاقات کی ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
آرکٹک کونسل وزارتی اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور آرکٹک ملکوں کے درمیان تعاون پر بات چیت کی جا رہی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق، دونوں رہنماوں نے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پر مضبوطی مگر شائستگی سے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔
اینٹنی بلنکن نے سرگئی لاوروف سے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان قابلِ قیاس اور مستحکم تعلقات ہونے چاہئیں، جو نہ صرف امریکی اور روسی عوام بلکہ پوری دنیا کیلئے اچھا ہے۔ بلنکن، اس حوالے سے صدر جو بائیڈن کے بیان کو ہی دہرا رہے تھے، جس میں صدر بائیڈن نے آئندہ ماہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی تجویز پیش کی تھی۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کوئی راز نہیں ہیں، جہاں تک اختلافات کا معاملہ ہے تو صدر بائیڈن نے صدر پیوٹن سے یہ بات کہی تھی کہ اگر روس، امریکہ کے خلاف یا اس کے شراکت داروں اور اتحادیوں کے خلاف جارحانہ طرز عمل اختیار کرے گا تو پھر اس کا جواب بھی دیا جائے گا، جو کسی کشیدگی میں اضافے کی نیت سے نہیں یا تنازعے کو ہوا دینے کیلئے نہیں، بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہو گا، اور صدر بائیڈن اپنی باتوں اور عمل سے اس کا مظاہرہ بھی کر چکے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی صورتحال کے جائزے کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں، اور تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئیے، اس پر بھی اختلافات موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ روس کا موقف بڑا واضح ہے کہ وہ بغیر کوئی توقع رکھے، تمام امور پر بات چیت کیلئے تیار ہے، لیکن ساتھ ہی یہ ادراک بھی موجود ہو کہ بات چیت حقیقت مندانہ ہو گی، جس میں حقائق سامنے رکھے جائیں اور یقیناً یہ باہمی احترام کی بنیاد پر ہو گی۔
یہ نظر میں رکھتے ہوئے کہ مختلف امور پر یہ بات چیت اختلافی اور مشکل ہو گی، دونوں وزرائے خارجہ نے، بدھ کے روز ہونے والی ملاقات سے پہلے ہی یوکرین، دی آرکٹک (قطب شمالی اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ)، روس کے اپوزیشن لیڈر الیکسی نیوالنی سےحکومت کے رویے اور سائبر جرائم کے الزامات پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف موقف کا اظہار کیا تھا۔
غیر متوقع طور پر پونے دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کے بعد، امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ بلنکن نے روس سے مطالبہ کیا ہے کے وہ اس کی جیل میں بند دو امریکیوں کو رہا کرے، جن کے نام پال وِیلن اور ٹریور رِیڈ ہیں۔ محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ بلنکن نے یوکرین کے سرحدی علاقے میں اپنی افواج کی تعیناتی پر اور وائس آف امیریکہ اور ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی کے خلاف روس کے اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
اسی دوران روس کی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق، لاوروف نے روس کے نامہ نگاروں کو بتایا کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت تعمیری تھی۔ انہوں نے بتایا کہ خاصے مسائل ہیں اور انہیں حل کرنا اتنا آسان نہیں ہے، لیکن انہیں احساس ہوا کہ اینٹنی بلنکن اور ان کی ٹیم ان کے حل کیلئے پر عزم ہے ۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ روس کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
کسی بھی فریق نے صدر بائیڈن اور صدر پیوٹن کے درمیان سربراہی ملاقات سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کیں، اور صرف اتنا بتایا گیا کہ اجلاس کیلئے بات چیت جاری ہے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے باوجود، ان میں اتفاق ہوا تھا کہ اسلحہ پر کنٹرول کے معاہدے میں مزید 5 سال کی توسیع کر دی جائے گی، جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انکار کیا تھا۔
ایک اور معاملے پر دونوں ملکوں میں اختلاف کی وجہ، قطب شمالی اور اس کے ارد گرد کا علاقہ ہے جہاں روس اپنی فوج کی موجودگی میں اضافہ کرتے ہوئے وہاں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اے پی کے مطابق، امریکہ اور روس کے تعلقات میں آئس لینڈ کے دارالحکومت ری کیا وِک کی ایک تاریخ ہے۔ ری کیا وک ہی وہ شہر ہے جہاں سن 1986 میں صدر رونلڈ ریگن اور روس کے لیڈر میخائل گوربا چوف کے درمیان تاریخی ملاقات ہوئی تھی۔