امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر، ایچ آر مک ماسٹر اتوار کے روز کابل پہنچے جہاں وہ افغان رہنمائوں سے سلامتی کے امور اور سرزمین پر امریکی فوجوں کی ضروریات کا تخمینہ لگانے کے لیے بات چیت کریں گے۔
مک ماسٹر کے دورے سے قبل امریکی فوج کے کمانڈروں نے ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی، جس کا مقصد افغانستان میں موجود تقریباً 8400 فوج کی نفری میں ''مزید چند ہزار'' کا اضافہ کرنا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی کے دفتر نے مک ماسٹر کے دورہ کابل کا خیرمقدم کیا اور افغانستان کے لیے امریکی حمایت جاری رکھنے پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔
دونوں کی ملاقات کے بعد، صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ غنی اور مک ماسٹر نے ''باہمی مراسم، سلامتی، انسدادِ دہشت گردی، اصلاحات اور ترقی'' کے بارے میں گفتگو کی۔
افغان فوج کے معاون چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل مراد علی مراد نے اخبار نویسوں سے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ کابل آمد کے فوری بعد، مک ماسٹر کی اپنے ہم منصب حنیف اتمر سے ملاقات ہوئی۔ مراد نے بتایا کہ سلامتی سے متعلق چوٹی کے امریکی اہل کار کا یہ دورہ دہشت گردی کے سلسلے میں ''مشترک دشمن'' کو شکست دینے میں افغانستان کے اتحادیوں کے لیے ٹھوس حمایت کا غماز ہے۔
مراد نے مزید کہا کہ اپنے دورے میں، مک ماسٹر افغان وزارتِ دفاع کے حکام سے بھی مذاکرات کرنے والے ہیں، اور اُنھوں نے زور دے کر کہا ہے کہ افغان سکیورٹی کی کارروائیوں میں مدد دینے کے لیے فوجوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
بم گرانے کا دفاع
مک ماسٹر کی ملک میں ایسے وقت آمد ہوئی ہے جس سے کچھ ہی روز قبل پاکستان کی سرحد سے ملحقہ مشرقی صوبہ ننگرہار میں داعش کے ایک مضبوط ٹھکانے پر امریکی فوج نے حملہ کیا، جس کے لیے امریکی حکام نے بتایا ہے کہ یہ حربی کارروائیوں میں استعمال کیا گیا پہلا سب سے بڑا غیر جوہری بم تھا۔
مراد نے بم گرانے کا دفاع کیا جس میں داعش کے 95 سے زائد شدت پسند ہلاک ہوئے، جب کہ افغانستان میں ''داعش کا حکمتِ عملی کا حامل ٹھکانہ'' تباہ ہوا۔
افغان اور امریکی افواج جمعرات کو ہونے والے اس حملے کے بعد سے اس علاقے میں چھان بین کر رہی ہیں۔
اُنھوں نے اس خیال کا اعادہ کیا کہ موصول ہونے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ شہری آبادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اُنھوں نے کہا کہ ''جاری تخمینے کے بعد تفصیل معلوم ہوگی، ممکن ہے کہ داعش کی ہلاکتیں 95 سے تجاوز کرجائیں''۔
اس کے علاوہ، افغان صحت عامہ سے متعلق وزارت کے اہل کاروں نے اخباری نمائندوں کو بتایا ہے کہ اُنھوں نے موبائل طبی ٹیمیں تعینات کر رکھی ہیں، جنھیں کسی شہری کے ہلاک ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اور حملے کے بعد علاقے میں صحت کا کوئی مسئلہ پیدا ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔