پاکستان نے ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ 'بارٹر سسٹم' کے تحت تجارت کا فیصلہ کیا ہے، تاہم بعض ماہرین کہتے ہیں کہ طورخم کے راستے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت مسلسل کم ہو رہی ہے جس کا لامحالہ اثر بارٹر سسٹم پر بھی پڑ سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت میں اضافہ دیکھا گیا تھا، تاہم رواں برس دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم میں کمی آئی ہے۔
ایسے میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ ڈالرز کی کمی کے شکار ملک پاکستان کے لیے بارٹر سسٹم کس حد تک مؤثر ثابت ہو گا اور پاک، افغان سرحد پر تجارت کو کس طرح مزید بڑھایا جا سکتا ہے؟
پاکستان اور افغانستان کی کاروباری برادری کی مشترکہ تنظیم کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارت میں کمی کی وجہ سے افغان تاجر پاکستان کے علاوہ اب ہمسایہ ملکوں کے راستے بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دو طرفہ تجارت کے لیے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور دیگر کاروباری افراد کو درپیش مشکلات اور مسائل حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
متعلقہ تجارتی اور کاروباری حلقوں کا مؤقف ہے کہ دو طرفہ تجارت کو مزید بڑھانے اور اسے افغانستان کے راستے دیگر وسطی ایشیائی ممالک تک وسعت دینے کی کافی گنجائش موجود ہے مگر اس سلسلے میں سرحدی گزرگاہوں پر سہولیات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔
'بارٹر سسٹم خوش آئند مگر انحصار افغان ٹریڈ پر ہی ہو گا'
ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے سربراہ زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ علاقائی ملکوں کے ساتھ بارٹر سسٹم خوش آئند ہے لیکن اس کی کامیابی کا انحصار افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت پر ہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بارٹر سسٹم کے اعلان کے بعد پاکستان اور افغانستان کی تاجر برادری متحرک ہوئی ہے اور مشاورتی اجلاس بھی ہو رہے ہیں۔
اُن کے بقول حکومت کو بینک اور الیکٹرانک رسید یا انوائس کی شرائط کو ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے جو افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
خیبرپختونخوا چیمبر آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر شاہد حسین کہتے ہیں کہ 2021 اور 2022 میں پاک، افغان دو طرفہ تجارت میں خاطر خواہ اضافہ ہو تھا مگر رواں برس تجارت میں مسلسل کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سرحدی گزر گاہوں پر سہولیات کے فقدان کے باعث سامان سے لدے ٹرک کئی کئی روز تک سرحد پر کھڑے رہتے ہیں جس کی وجہ سے تاجروں کو نقصان ہوتا ہے۔
اگرچہ پاکستان اور طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کے متعلقہ عہدیدار ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے وابستہ ڈاکٹر مخلص سرحدی گزرگاہوں پر پارکنگ کی کمی ، انٹرنیٹ سسٹم اور دیگر تیکنیکی مسائل کو دو طرفہ تجارت میں کمی اور رکاوٹ کا باعث قرار دیتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2021 میں دو طرفہ تجارت کا حجم 451 ملین امریکی ڈالر تک پہنچا تھا جو 2020 میں 300 ملین امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھا۔ اکتوبر 2022 میں دو طرفہ تجارت کے حجم میں 64فی صد اضافہ ہوا جس کے بعد اس میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔
پاک، افغان چیمبر آف کامرس کے ڈائریکٹر ضیاء الحق سرحدی کہتے ہیں کہ پاک، افغان باہمی تجارت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے پر دونوں جانب کی بزنس کمیونٹی کے تحفظات ہیں اور ان تحفظات کو دور کیے بغیر دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں اضافہ محض ایک خواب ہے۔
ضیاء الحق سرحدی نے مزید بتایا کہ اکثر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے جو ٹرک افغانستان جاتے ہیں واپسی پر خالی کنٹینرز بمعہ ٹرک جلال آباد میں روک لیے جاتے ہیں اور اب بھی ایک اندازے کے مطابق 2500 سے لے کر 3000 ٹرک جلال آباد میں کھڑے ہیں۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ کراچی سے جلال آباد تک فی کس ٹرک کا کرایہ جو ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے وہ اب پانچ لاکھ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خالی کنٹینرز جو شپنگ لائنز کے ہوتے ہیں اُن پر بھی یومیہ 120 ڈالرز بطور ڈیمرج وصول کیا جاتا ہے۔
شاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان سے کمرشل سامان سے لدے ٹرکوں میں20 سے 30 فی صد تک کمی ہوئی ہے اور اس کی وجوہات میں سرحدی گزرگاہوں پر سہولیات اور سرکاری اداروں میں عملے کی کمی ہے۔
رابطوں کا فقدان
ضیاء الحق سرحدی نے بتایا کہ چند روز قبل مصروف ترین سرحدی گزرگاہ طورخم میں دونوں ممالک کے تاجروں اور صنعت کاروں کے اجلاس میں پاکستان اور افغانستان کے مختلف اداروں کے عہدیدار بھی شریک ہوئے تھے۔
اُن کے بقول اس دوران معلوم ہوا کہ دونوں اطراف کے سرکاری اداروں کے درمیان بھی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔
چیکنگ میں مشکلات
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر فیض محمد فیضی کہتے ہیں کہ کسٹم کی طرف سے اُنہیں مشکلات نہیں ہیں، مسئلہ صرف بارڈر مینجمنٹ کا ہے۔
اُن کے بقول چیکنگ کے لیے فرنٹیئر کور، این ایل سی کے علاوہ دیگر ادارے بھی موجود ہیں اور وہ چیکنگ کے دوران کافی وقت صرف کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کراچی پورٹ پر بھی کنٹینرز کلیئر ہونے میں کئی روز لگ جاتے ہیں جس سے ڈیمرج چارجز پڑ جاتے ہیں۔
حکومت کا مؤقف
طورخم میں دو دن قبل ہمسایہ ملکوں کے دو طرفہ تجارت سے منسلک تاجروں، کمیشن ایجنٹوں اور سرکاری عہدے داروں کے اجلاس میں پاکستان کسٹم کے ایڈیشنل کلکٹر محمد رضوان نے بھی شرکت کی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت پاک، افغان سرحد پر تجارت کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
محمد رضوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بزنس کمیونٹی کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور جلد باہمی مشاورت سے تمام مسائل حل کر لیے جائیں گے۔