اس وقت جبکہ امریکہ اور چین تجارتی محاذ آرائی کم کرنے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں، ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ چین کو ہونے والی برآمدات میں امریکی ٹکنالوجی کی چین کو منتقلی روکنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔
سنگاپور کی قومی یونیورسٹی کے تجارتی سکالر ایلکس کیپری کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں امریکہ بھر میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ چینی کمپنیوں کو امریکہ سے چند مخصوص اعلیٰ ٹکنالوجی کی حامل مصنوعات کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
اُدھر چین نے اُن اشیاء کی ایک فہرست تیار کر لی ہے جن پر وہ امریکہ کی طرف سے چینی درآمدات پر عائد ہونے والے محصولات کے جواب میں ایسے ہی اقدامات کرنے کا متمنی ہے۔
یورپی یونین نے بھی ایسی قانون سازی پر غور شروع کر دیا ہےجس کے تحت چین کی طرف سے ایسی خریداری کو روکا جائے گا جس میں اعلیٰ ٹکنالوجی کی منتقلی کا اندیشہ ہو۔ چین کو خدشہ ہے کہ امریکی اقدامات کے ذریعے یورپی ممالک کے قائدین کو بھی اس بات کی تحریک مل سکتی ہے کہ وہ بھی چین کی طرف سے ٹیکنالوجی کے حصول کو روکنے کی کوشش کریں۔
اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے چین کے وزیر اعظم لی کی چئنگ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ چین میں سرمایہ کاری کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کیلئے یہ لازمی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی چینی شراکت دار کمپنیوں کے ساتھ ٹکنالوجی شیئر کریں۔ اس سے پہلے چین میں سرمایہ کاری کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کیلئے لازمی تھا کہ وہ مقامی سطح پر ٹکنالوجی کی معلومات فراہم کریں۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی طرف سے امریکی پابندیوں کے جواب میں فیس بک اور گوگل جیسی امریکی کمپنیوں پر ایسی ہی پابندیاں عائد کرنا مشکل ہو گا۔ چین میں ٹویٹر پر پہلے ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
اس کے علاوہ چین کیلئے ایپل جیسی کمپنیوں پر کوئی پابندی لگانا بھی مشکل ہوگا جو چین میں آئی فون کے پرزہ جات تیار کرنے کیلئے تائیوان کی ایک کمپنی کے ساتھ ملکر کام کرتی ہے۔ اس پر پابندی لگانے کی صورت میں چین کی مقامی کمپنیوں اور مقامی معیشت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
کورنل کے ایمرجنگ مارکٹس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر لورڈس کاسونووا نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ چین کو امریکہ اور یورپ میں سرمایہ کاری کے حوالے سے خود اپنی اشیاء کے جملہ ملکیتی حقوق کے بارے میں تشویش لاحق ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب سے چین نے اپنی معیشت کو پابندیوں سے آزاد کیا ہے، چین کی کمپنیوں کو اپنے دانشورانہ ملکیتی حقوق کے تحفظ کے مسئلے کا سامنا ہے۔
تاہم، امریکی کمپنیاں چین میں اپنے کاروبار سے خطیر منافع کماتی ہیں۔ لہذا، چین کو توقع ہے کہ وہ اس سلسلے میں چین سے تعاون کریں گی۔