پاکستان میں تاجر برادری نے حکومت کی معاشی پالیسیوں اور نئے ٹیکس عائد کرنے پر جزوی ہڑتال کر رکھی ہے، جس کے باعث ملک بھر میں مختلف کاروباری مراکز اور دکانیں بند ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے حالیہ بجٹ میں ٹیکس اصلاحات متعارف کروائی تھیں اور اس ضمن میں مزید افراد کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے اقدامات کیے گئے تھے۔
تاجر برادری نے ان حکومتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چھ مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں۔ تاجروں کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت نے تاجر تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کیے جو ناکام ہو گئے تھے۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار علی فرقان کے مطابق ملک کی مختلف تاجر تنظیمیں ہڑتال کے معاملے پر تقسیم نظر آتی ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور سمیت تمام بڑے شہروں میں تاجر برادری نے کاروبار جزوی طور پر بند کررکھے ہیں اور مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے جارہے ہیں۔
تاجر تنظیموں کے مطابق چاروں صوبوں کی انجمن تاجران اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کی جانب سے نافذ کئے گئے اضافی ٹیکس اور شرائط سے انہیں کاروبار میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تاجر رہنماؤں کے وفد نے حال ہی میں وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ہڑتال رکوانے کے لیے تاجر تنظیموں سے متعدد ملاقاتیں بھی کیں تھیں جو بے نتیجہ رہیں۔
اسلام آباد میں انجمن تاجران پاکستان کے صدر اجمل بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج پورے پاکستان میں 95 فیصد شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔ ایسی کامیاب ہڑتال ماضی میں کبھی نہیں کی گئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اجمل بلوچ کا کہنا تھا کہ تاجر ٹیکس دینا چاہتے ہیں، لیکن ایف بی آر کا موجودہ ٹیکس نظام انھیں قبول نہیں ہے۔ ان کے بقول ایف بی آر سال میں تین بار انھیں ٹیکس ریٹرن جمع کروانے پر اصرار کر رہا ہے جبکہ وہ چاہتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے منظور شدہ فکس ٹیکس پر عمل درآمد کیا جائے۔
تاجر رہنما خالد چوہدری کہتے ہیں کہ ایف بی آر کے نئے قواعد کے مطابق چھوٹے تاجر کو بھی ہر ماہ ٹیکس ریٹرن جمع کروانا ہوں گی۔ ان کے بقول یہ ممکن نہیں کہ ایک عام دکاندار بغیر کسی ماہر وکیل کی مدد کے اپنی ٹیکس ریٹرن جمع کروا سکے۔
تاجر ہڑتال کیوں کر رہے ہیں؟
حکومت اور کاروباری طبقہ کے درمیان اختلاف کی ایک وجہ خرید وفروخت کے دوران شناختی کارڈ کی شرط بھی ہے جسے کاروباری حضرات ماننے کو تیار نہیں۔
حکومت کی جانب سے لین دین کی رسید پر شناختی کارڈ نمبر لکھنے کی شرط ختم کرنے کے علاوہ تاجر برادری چاہتی ہے کہ تھوک و پرچون فروشوں یعنی (ڈسٹری بیوٹرز، ریٹیلرز) سے کل آمدن کی بجائے صرف خالص منافع پر ٹیکس لیا جائے۔
تاجروں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پرچون فروشوں(ریٹیلرز) پر فکسڈ ٹیکس کا قانون لاگو کیا جائے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے موبائل فون اور سمیت دیگر اشیاء پر لگائی گئی ڈیوٹی پر بھی نظر ثانی کی جائے۔
تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیں لیکن جب بات نہیں بنی تو وہ ہڑتال کی کال دینے پر مجبور ہوئے۔
پاکستان کی تاجر برادری نے رواں مالی سال کے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ حکومت نے ان پر آمدن سے زائد ٹیکس نافذ کردیے ہیں۔
ان مطالبات کے حق میں صرافہ بازار، کپڑا مارکیٹس، کراکری، اسٹیشنری، کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے کاروباری افراد نے اتفاق کرتے ہوئے ہڑتال کا فیصلہ کیا تھا۔
ملک بھر کی تاجر برادری کا کہنا ہے کہ مطالبات تسلیم ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔ جبکہ آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے بھی 17 جولائی سے نئے ٹیکس کے نفاذ کے خلاف ملک بھر میں ملیں بند کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ میں گندم کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس کا براہ راست اثر مہنگائی کی صورت میں عوام پر پڑے گا۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ہڑتال کو بلاجواز قرار دیا اور کہا کہ ایک حد تک مطالبات تسلیم ہو سکتے ہیں۔ لیکن ٹیکس کے نظام میں بہتری اور معیشت کی مضبوطی کے لیے ٹیکس وصولیوں میں رعایت نہیں دی جا سکتی۔