رسائی کے لنکس

کوڑا دے دو، ٹکٹیں لے لو


انڈونیشیا کے شہر سورابایا میں شہری کوڑے کے بدلے ٹکٹ حاصل کر کے بس میں سوار ہو رہے ہیں۔ فائل فوٹو
انڈونیشیا کے شہر سورابایا میں شہری کوڑے کے بدلے ٹکٹ حاصل کر کے بس میں سوار ہو رہے ہیں۔ فائل فوٹو

حال ہی میں ایسی دہلا دینے والی رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ سمندروں اور ہمارے چاروں طرف پھیلی پلاسٹک کی مصنوعات سے انتہائی ننھے منے پلاسٹک کے ذرات انسانی جسم میں سرایت کر رہے ہیں ۔اطلاع اپنی جگہ انتہائی خوفناک ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پلاسٹک کی آسانیوں اور کم خرچ ہونے کی وجہ سے فی الوقت اس مسئلے سے نمٹنے کا واحد طریقہ بلکہ امید محض ری سائیکلنگ ہے ۔ انڈونیشیا کے دوسرے سب سے بڑے شہر ’سورا بایا‘ میں عہدہ داروں نے ایک دلچسپ طریقہ سوچا ہے۔

اس کے تحت سورابایا کےبہت سے شہری اپنے مقامی بس اسٹاپ پر جاتے ہوئے ایسے تھیلے اٹھائے ہوتے ہیں، جن میں پلاسٹک کا کوڑا کر کٹ بھرا ہو تا ہے۔ بسوں کے اڈے پر اس کوڑے کے بدلے انہیں بس کے ٹکٹ مل جاتے ہیں۔ ایک مسافر سلستاری نے بتایا کہ ہم اپنے گھر میں کوڑے کا ڈھیر لگانے کے بجائے اسے یہاں لے آتے ہیں اور اس کا ایک بہترین استعمال کر سکتے ہیں یعنی ’دونوں طرح سے ہمارا ہی فائدہ ہے‘۔

تبادلے کا طریقہ بہت آسان ہے۔ دس پلاسٹک کے کپ یا پانچ پلاسٹک کی بوتلیں دیجئے اور بدلے میں دو گھنٹے کا بس کا ٹکٹ مفت میں حاصل کریں ۔

ہمیں ایسا لگتا نہیں ہے لیکن پلاسٹک کا ڈھیر لگنے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا خاص طور پر انڈونیشیا جیسے ملکو ں میں جہاں پلاسٹک ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سورابایا شہر کے ٹراسپورٹیشن کے محکمے کے اہل کار اروان اعتراف کرتے ہیں کہ انڈونیشیا بہت زیادہ پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ پھیلانے والے ملکوں میں شامل ہے۔ تاہم انہیں امید ہے کہ اس کوشش سے ان کا ملک ماحول کی بہتری کے بارے میں عوامی آگہی میں اضافہ کر سکے گا، خاص طور سے ان مسائل کے بارے میں جن کا تعلق استعمال شدہ پلاسٹک سے ہے ۔

ایسا کرنا ٹرانسپورٹیشن کے محکمے کے لئے کوئی گھاٹے کا سودا بھی نہیں ہے۔ اس تمام کوڑے کرکٹ کو بعد میں الگ الگ کر کے ری سائیکلنگ کمپنیوں کو نیلامی کے ذریعہ فروخت کر دیا جا تا ہے۔ یعنی ’ آم کے آم ، گٹھلیوں کے دام ‘۔ پلاسٹک کے بدلے ٹکٹ‘ جکارتہ کے اس ملک گیر منصوبے کا حصہ ہے جسے 2020 تک کوڑے کرکٹ سے پاک انڈونیشیا کا نام دیا گیا ہے ۔

XS
SM
MD
LG