کراچی —
کراچی میں آباد ’بوہرہ برادری‘ اپنی مخصوص وضع قطع اور روایتی لباس کی وجہ سے باآسانی ہر جگہ پہچانی جاتی ہے۔ خاموش طبع، بے ضرر، اپنے کام سے کام رکھنے والی، سیدھی سادی اور ملنسار ۔۔یہ الفاظ اس برادری پر کھرے اترتے ہیں۔
سب سے منفرد اور جداگانہ حیثیت رکھنے کے سبب ہی اس برادری سے بہت سی دلچسپ اور دلکش روایات جڑی ہوئی ہیں۔ صدیاں گزرجانے کے باوجود ان کے رسم و رواج آج بھی اسی طرح مقبول اور قابل عمل ہیں جتنے پہلے کبھی ہوں گے۔
سیف الدین وائی دیوان، کراچی میں حیدری جماعت خانے کے قریب رہتے ہیں۔ ان کی رسالوں اور اخبارات کی ڈسٹری بیوشن کمپنی ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو ان رسوم و رواج سے متعلق آگاہ کیا جبکہ نمائندے نے اس حوالے سے تحقیق بھی کی۔
بچے کی پیدائش سے متعلق دلچسپ روایات
وہ کہتے ہیں ’برادری میں جب بھی کسی کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو چھ دن کے بعد اس کا نام رکھا جاتا ہے۔ نام رکھنے کا ’حق‘صرف بچے کی پھوپھی کو ہوتا ہے۔ اس روز بچے کو سفید لباس پہنایا جاتا ہے جس پر زعفران چھڑکا جاتا ہے۔بچے کے سرہانے یا اونچی جگہ پر ایک طشت میں قرآن پاک سے سورہ مریم کھول کر اس میں انار کی شاخ کی قلم رکھی جاتی ہے۔ طشت میں آٹے سے بنا ہوا ایک گھی کا چراغ بھی روشن ہوتا ہے جو ساری رات جلتا ہے۔ ولادت کے فوراً بعد سب سے پہلے بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جاتی ہے ۔ نام رکھنے کے بعد پھوپھی بچے کے کان میں اس کا نام بتاتی ہے۔“
رنگ برنگی ’ردا‘ اور سنہرے دائرے والی ٹوپی
ایک اور روایت کے مطابق بوہرہ برادری کے مرد ہمیشہ سر پر ایک خاص قسم کی سفید ٹوپی پہنتے ہیں جس پر سنہری رنگ کا سونے کی چمک جیسا دائرہ بنا ہوا ہوتا ہے جبکہ خواتین دو حصوں پر مشمل مختلف رنگوں کا ایک برقع زیب تن کرتی ہیں جسے ’ردا‘ کہا جاتا ہے۔اس کی بناوٹ اور تراش خراش ، یہاں تک کہ اس کے رنگ اور سلائی کڑھائی بھی عام برقعوں سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔ بوہرہ خواتین چہرے پر حجاب نہیں پہنتیں البتہ سر ڈھکا ہوتا ہے۔
سفید رنگ کا پاجامہ، قمیص اور شیروانی مردوں کا لباس ہے۔ عورتین لمبا سا لہنگا زیب تن کرتی ہیں جسے ’گھاگرا‘ کہا جاتا ہے۔مردوں کے لئے داڑھی رکھنا ضروری ہے ۔ اس کا منڈوانا گناہ تصور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بالغ بوہرہ داڑھی کے بغیر نظر نہیں آتا۔
چمڑے کے جوتے ممنوع
بوہرہ برادری کی اپنے مذہب اور عقائد سے جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر اپنی مسجد یاجماعت خانے کے قریب ہی رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے لئے جماعت خانہ صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں ہوتی بلکہ معاشرتی اور مذہبی سرگرمیوں کا اہم مرکز بھی ہوتی ہے۔عقائد کے عین مطابق بوہرہ مرد چمڑے کے جوتے نہیں پہنتے ، بلکہ کپڑے یا کینوس کے بنے جوتے پہنتے ہیں۔ چمڑے سے متعلق یہ شک لاحق رہتا ہے کہ نامعلوم وہ کسی مردہ جانور کی کھال سے بنا ہے یا باقاعدہ ذبح کردہ جانور کا۔ ۔۔اسلام میں مردار جانور حرام ہوتا ہے ۔
روایت کے مطابق ہی بوہرہ برادری کے مرد مخصوص انداز میں داڑھی رکھتے ہیں جو انہیں دوسروں سے منفرد بناتی ہے ۔ اس کے سبب یہ کہیں بھی ہوں ،آسانی سے پہچان میں آجاتے ہیں۔
ایک اور چیزجو بوہرہ برادری کو دوسروں سے منفرد بتاتی ہے وہ فاطمید قمری کلینڈر ہے جس میں شمار کے لحاظ سے ہر مہینے کی تاریخیں طے ہوتی ہیں۔ لہذا، دوسری کمیونٹی کے مقابلے میں ان کی عید اور کچھ دیگر تہوار دوسروں سے ایک دو روز پہلے ہی منالئے جاتے ہیں۔
’پہلی رات‘
پہلی محرم کی رات خوشی کاباعث ہوتی ہے۔ اسے’پہلی رات‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ۔ اس رات عزیزواقارب کو دعوت پر گھروں میں مدعو کیا جاتا ہے جس میں نئے سال کی مبارک باد دی جاتی ہے اور نماز کی ادائیگی کے بعد رات کے کھانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مرغی ، مچھلی اور سبزیوں والی ڈشیں پکائی جاتی ہیں۔
کھانے کے دلکش آداب
یہ کھانا بھی مخصو ص روایتی لیکن نہایت دلکش انداز میں سرو کیا جاتا ہے۔پہلے بڑا سا دستر خوان بچھایا جاتا ہے۔ اس پر ایک چوڑے پہئے کی شکل کا گھیرے نما اسٹینڈ رکھا جاتا ہے جسے ’کونڈلی‘ کہا جاتا ہے۔ کونڈلی پر ایک بہت بڑا طشت یا تھال رکھا جاتا ہے جس میں مختلف کھانے سجا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ گھر کے تمام افراد ایک ساتھ طشت کے گرد فرشی نشست میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، الگ الگ پلیٹوں میں کھانے کا کوئی رواج نہیں۔
کھانے سے پہلے نمک چکھنے کی رسم
کھانا کھاتے وقت مردوں کے سرپر ٹوپی اور عورتوں کے سرپر دوپٹہ ہونا ضروری ہے۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے سب سے کم عمر شخص ایک چھوٹی سی پلیٹ میں سب کونمک پیش کرتا ہے جسے چکھنے کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جاتا ہے۔
اگر دسترخوان پر میٹھائی موجود ہو تو پہلے میٹھی چیز کھائی جاتی ہے۔ کھانا بڑے ادب سے کھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی ذرا بھی زمین پر نہیں گرنے دیا جاتا۔ طشت میں کھانا چھوڑنا اصولوں کے خلاف ہے۔ لہذا، اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے کہ کھانا ضائع نہ ہو۔
کھانا ختم ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر نمک چکھایا جاتا ہے، اس کے بعد دستر خوان سمیٹا جاتا ہے۔ وی او اے کا نمائندہ بذات خود ایسی تقریبات میں شریک ہوچکا ہے ۔مشاہدے کے مطابق گھروں میں کھانا سرو ہو یا شادی کی بڑی بڑی تقریبات میں۔۔ انداز یہی ہوتا ہے۔
ممبئی کے بعد کراچی سب سے بڑا مسکن
بوہرہ برادری کے قریبی ذرائع کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں بوہرہ برادری کی مجموعی آبادی 15یا 16لاکھ کے آس پاس ہے۔ اس برادری کی اکثریت ممبئی میں مقیم ہے، وہیں ان کا پایہ تخت بھی ہے۔ برادری کے آباوٴ اجداد بھارتی ریاست گجرات کے قدیم باشندے تھے تاہم موجودہ دور میں کراچی دنیا میں ان کا دوسرا بڑا مسکن ہے۔
بوہر ہ برادری کے تمام لوگ تجارت پیشہ ہوتے ہیں ۔دراصل بوہرہ گجراتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہی ’تجارت پیشہ‘ ہیں۔ کراچی اور ممبئی کے بعد سری لنکا، تھائی لینڈ، مصر، عراق، عرب امارات، کینیڈا، برطانیہ، ترکی سنگاپور اور افریقہ میں بھی ان کی آبادیاں موجود ہیں۔
اندرون پاکستان یہ سب سے زیادہ کراچی میں رہائش رکھتے ہیں، جبکہ ملتان، حیدرآباد، لاہور، ایبٹ آباد، راولپنڈی اور پشاور میں بھی بوہرہ برادری بڑی تعداد میں آباد ہے۔
سب سے منفرد اور جداگانہ حیثیت رکھنے کے سبب ہی اس برادری سے بہت سی دلچسپ اور دلکش روایات جڑی ہوئی ہیں۔ صدیاں گزرجانے کے باوجود ان کے رسم و رواج آج بھی اسی طرح مقبول اور قابل عمل ہیں جتنے پہلے کبھی ہوں گے۔
سیف الدین وائی دیوان، کراچی میں حیدری جماعت خانے کے قریب رہتے ہیں۔ ان کی رسالوں اور اخبارات کی ڈسٹری بیوشن کمپنی ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو ان رسوم و رواج سے متعلق آگاہ کیا جبکہ نمائندے نے اس حوالے سے تحقیق بھی کی۔
بچے کی پیدائش سے متعلق دلچسپ روایات
وہ کہتے ہیں ’برادری میں جب بھی کسی کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو چھ دن کے بعد اس کا نام رکھا جاتا ہے۔ نام رکھنے کا ’حق‘صرف بچے کی پھوپھی کو ہوتا ہے۔ اس روز بچے کو سفید لباس پہنایا جاتا ہے جس پر زعفران چھڑکا جاتا ہے۔بچے کے سرہانے یا اونچی جگہ پر ایک طشت میں قرآن پاک سے سورہ مریم کھول کر اس میں انار کی شاخ کی قلم رکھی جاتی ہے۔ طشت میں آٹے سے بنا ہوا ایک گھی کا چراغ بھی روشن ہوتا ہے جو ساری رات جلتا ہے۔ ولادت کے فوراً بعد سب سے پہلے بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جاتی ہے ۔ نام رکھنے کے بعد پھوپھی بچے کے کان میں اس کا نام بتاتی ہے۔“
رنگ برنگی ’ردا‘ اور سنہرے دائرے والی ٹوپی
ایک اور روایت کے مطابق بوہرہ برادری کے مرد ہمیشہ سر پر ایک خاص قسم کی سفید ٹوپی پہنتے ہیں جس پر سنہری رنگ کا سونے کی چمک جیسا دائرہ بنا ہوا ہوتا ہے جبکہ خواتین دو حصوں پر مشمل مختلف رنگوں کا ایک برقع زیب تن کرتی ہیں جسے ’ردا‘ کہا جاتا ہے۔اس کی بناوٹ اور تراش خراش ، یہاں تک کہ اس کے رنگ اور سلائی کڑھائی بھی عام برقعوں سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔ بوہرہ خواتین چہرے پر حجاب نہیں پہنتیں البتہ سر ڈھکا ہوتا ہے۔
سفید رنگ کا پاجامہ، قمیص اور شیروانی مردوں کا لباس ہے۔ عورتین لمبا سا لہنگا زیب تن کرتی ہیں جسے ’گھاگرا‘ کہا جاتا ہے۔مردوں کے لئے داڑھی رکھنا ضروری ہے ۔ اس کا منڈوانا گناہ تصور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بالغ بوہرہ داڑھی کے بغیر نظر نہیں آتا۔
چمڑے کے جوتے ممنوع
بوہرہ برادری کی اپنے مذہب اور عقائد سے جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر اپنی مسجد یاجماعت خانے کے قریب ہی رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے لئے جماعت خانہ صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں ہوتی بلکہ معاشرتی اور مذہبی سرگرمیوں کا اہم مرکز بھی ہوتی ہے۔عقائد کے عین مطابق بوہرہ مرد چمڑے کے جوتے نہیں پہنتے ، بلکہ کپڑے یا کینوس کے بنے جوتے پہنتے ہیں۔ چمڑے سے متعلق یہ شک لاحق رہتا ہے کہ نامعلوم وہ کسی مردہ جانور کی کھال سے بنا ہے یا باقاعدہ ذبح کردہ جانور کا۔ ۔۔اسلام میں مردار جانور حرام ہوتا ہے ۔
روایت کے مطابق ہی بوہرہ برادری کے مرد مخصوص انداز میں داڑھی رکھتے ہیں جو انہیں دوسروں سے منفرد بناتی ہے ۔ اس کے سبب یہ کہیں بھی ہوں ،آسانی سے پہچان میں آجاتے ہیں۔
ایک اور چیزجو بوہرہ برادری کو دوسروں سے منفرد بتاتی ہے وہ فاطمید قمری کلینڈر ہے جس میں شمار کے لحاظ سے ہر مہینے کی تاریخیں طے ہوتی ہیں۔ لہذا، دوسری کمیونٹی کے مقابلے میں ان کی عید اور کچھ دیگر تہوار دوسروں سے ایک دو روز پہلے ہی منالئے جاتے ہیں۔
’پہلی رات‘
پہلی محرم کی رات خوشی کاباعث ہوتی ہے۔ اسے’پہلی رات‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ۔ اس رات عزیزواقارب کو دعوت پر گھروں میں مدعو کیا جاتا ہے جس میں نئے سال کی مبارک باد دی جاتی ہے اور نماز کی ادائیگی کے بعد رات کے کھانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مرغی ، مچھلی اور سبزیوں والی ڈشیں پکائی جاتی ہیں۔
کھانے کے دلکش آداب
یہ کھانا بھی مخصو ص روایتی لیکن نہایت دلکش انداز میں سرو کیا جاتا ہے۔پہلے بڑا سا دستر خوان بچھایا جاتا ہے۔ اس پر ایک چوڑے پہئے کی شکل کا گھیرے نما اسٹینڈ رکھا جاتا ہے جسے ’کونڈلی‘ کہا جاتا ہے۔ کونڈلی پر ایک بہت بڑا طشت یا تھال رکھا جاتا ہے جس میں مختلف کھانے سجا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ گھر کے تمام افراد ایک ساتھ طشت کے گرد فرشی نشست میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، الگ الگ پلیٹوں میں کھانے کا کوئی رواج نہیں۔
کھانے سے پہلے نمک چکھنے کی رسم
کھانا کھاتے وقت مردوں کے سرپر ٹوپی اور عورتوں کے سرپر دوپٹہ ہونا ضروری ہے۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے سب سے کم عمر شخص ایک چھوٹی سی پلیٹ میں سب کونمک پیش کرتا ہے جسے چکھنے کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جاتا ہے۔
اگر دسترخوان پر میٹھائی موجود ہو تو پہلے میٹھی چیز کھائی جاتی ہے۔ کھانا بڑے ادب سے کھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی ذرا بھی زمین پر نہیں گرنے دیا جاتا۔ طشت میں کھانا چھوڑنا اصولوں کے خلاف ہے۔ لہذا، اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے کہ کھانا ضائع نہ ہو۔
کھانا ختم ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر نمک چکھایا جاتا ہے، اس کے بعد دستر خوان سمیٹا جاتا ہے۔ وی او اے کا نمائندہ بذات خود ایسی تقریبات میں شریک ہوچکا ہے ۔مشاہدے کے مطابق گھروں میں کھانا سرو ہو یا شادی کی بڑی بڑی تقریبات میں۔۔ انداز یہی ہوتا ہے۔
ممبئی کے بعد کراچی سب سے بڑا مسکن
بوہرہ برادری کے قریبی ذرائع کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں بوہرہ برادری کی مجموعی آبادی 15یا 16لاکھ کے آس پاس ہے۔ اس برادری کی اکثریت ممبئی میں مقیم ہے، وہیں ان کا پایہ تخت بھی ہے۔ برادری کے آباوٴ اجداد بھارتی ریاست گجرات کے قدیم باشندے تھے تاہم موجودہ دور میں کراچی دنیا میں ان کا دوسرا بڑا مسکن ہے۔
بوہر ہ برادری کے تمام لوگ تجارت پیشہ ہوتے ہیں ۔دراصل بوہرہ گجراتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہی ’تجارت پیشہ‘ ہیں۔ کراچی اور ممبئی کے بعد سری لنکا، تھائی لینڈ، مصر، عراق، عرب امارات، کینیڈا، برطانیہ، ترکی سنگاپور اور افریقہ میں بھی ان کی آبادیاں موجود ہیں۔
اندرون پاکستان یہ سب سے زیادہ کراچی میں رہائش رکھتے ہیں، جبکہ ملتان، حیدرآباد، لاہور، ایبٹ آباد، راولپنڈی اور پشاور میں بھی بوہرہ برادری بڑی تعداد میں آباد ہے۔