پاکستان اور افغانستان کے مابین طورخم کے راستے سامان تجارت کی نقل و حمل سے وابستہ گاڑیوں کے مالکان اور ڈرائیوروں نے ہڑتال کر دی ہے جس سے ایک بار پھر دو طرفہ آمدورفت متاثر ہوئی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں تعلقات تناؤ ہے جس کی ایک وجہ سرحد پر پیش آنے والے بعض ناخوشگوار واقعات ہیں۔
ایک طرف افغان حکومت نے سامان لانے اور لے جانے والی گاڑیوں پر 11 ہزار روپے فی ٹرک ٹیکس لاگو کر رکھا ہے جب کہ پاکستان نے اپنے ہاں بغیر ویزہ کے داخل ہونے والے ٹرک ڈرائیوروں اور ان کے معاونین پر دو ہزار روپے جرمانہ عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
ان اقدامات کے خلاف منگل کو ٹرک ڈروائیوروں اور مالکان نے ہڑتال کر دی جس سے سرحد کے دونوں جانب گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھنے میں آرہی ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں ٹرک مالکان کی تنظیم کے صدر جہانزیب آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھاری ٹیکسز اور جرمانوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹر برادری بہت پریشان ہیں اور ان کے کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
"ہم نے یہاں سرحدی حکام سے ملاقات کر کے انھیں بتایا کہ آپ جو پاسپورٹ مانگ رہے ہو تو یہ ہمارے سے سہل نہیں ہے اتنی زیادہ گاڑیاں ہیں ہم اتنا کچھ نہیں کر سکتے۔ اتنے لوگوں کے ویزے لگوانا ممکن نہیں ہے۔
پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے اور ایسی غیرقانونی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے یہ اقدام کیا گیا ہے۔ حکام کے بقول آئندہ سال 31 جنوری کے بعد نہ صرف ٹرانسپورٹ اور تجارت سے وابستہ افراد بلکہ سرحد کے دونوں جانب آباد قبائلیوں کو بھی پاسپورٹ کے بغیر سفری سہولت فراہم نہیں کی جائے گی۔