پشاور سے ملحقہ سابق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں دکانداروں، تاجروں اور چھوٹے کارخانہ داروں نے جمعرات کے روز علاقے میں ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف مظاہرہ کیا۔
پچھلے مہینے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بعد حکومت نے ایک طرف قبائلی عوام بالخصوص مراعات یافتہ قبائلی خاندانوں کو دی جانے والی مالی اور سیاسی مراعات ختم کر دی تھیں اور دوسری طرف ان علاقوں میں تجارتی اور صنعتی اداروں پر ٹیکسوں کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔
اسی طرح، قبائلی علاقوں میں امن و امان قائم کرنے والے سکیورٹی اداروں یعنی خاصہ دار فورسز میں فرائض سرانجام دینے والے اہلکاروں کے مستقبل کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ اہلکار بھی بے چینی کا شکار ہیں۔
پشاور کے قریب جمرود بازار میں سینکڑوں کارخانہ داروں، دکانداروں اور تاجروں نے ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف نعرے لگائے اور حکومت کے اس فیصلے کو قبائلیوں کا معاشی قتل قرار دیا۔
مظاہرین سے سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینٹر مرزا محمد آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی وجہ سے قبائلی علاقے کافی پسماندہ ہیں۔ ان علاقوں میں ذرائع روزگار کی کمی ہے۔ لہٰذا، انہوں نے حکومت سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا سینٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ قبائلی علاقوں کو کم ازکم15سال تک ہر قسم کے ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
ابھی تک قبائلی علاقوں میں ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف کیے جانے والے احتجاج پر حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ رد عمل جاری نہیں ہوا۔ تاہم، چند روز قبل گورنر خیبر پختونخوا، انجینئر اقبال ظفر جھگڑا نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ پہلے ان قبائلی علاقوں کو ترقی دے اور انہیں ملک کے دیگر اضلاع، علاقوں کے برابر لاکھڑا کرے، بعد میں یہاں پر ٹیکسوں کا نفاذ کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں نہ صرف گورنر خیبر پختونخوا بلکہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سابق ممبران قومی اسمبلی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی وفاقی حکومت کو ان علاقوں کے ہر قسم کے وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں سے مستثنیٰ کرنے کے مطالبات کر رکھے ہیں۔