صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ چین کے خلاف تجارتی لڑائی نہیں لڑ رہا، جس سے پہلے چین نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی مصنوعات پر 50 ارب ڈالر مالیت کے محصولات عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو اقدام چین کے مطابق، امریکہ کی جانب سے کیے گئے اقدام کے جواب میں کیا جائے گا۔
ایک ٹوئٹر پیغام میں بدھ کے روز ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم چین کے ساتھ تجارتی لڑائی نہیں کر رہے ہیں، جو لڑائی کئی برس قبل ہم نے بے وقوف، نااہل امریکی نمائندوں کی وجہ سے ہاری تھی‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اب ہمارا تجارتی خسارہ 500 ارب ڈالر سالانہ ہے، جب کہ حقوقِ دانش کی چوری کے باعث مزید 300 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہم اسے جاری رہنے نہیں دیں گے‘‘۔
اُسی روز، وائٹ ہاؤس کے چیف اقتصادی مشیر، لیری کدلو نے ’بلومبرگ نیوز‘ کو بتایا کہ ’’ابھی کوئی محصول لاگو نہیں کیا گیا، یہ تمام ہی تجاویز ہیں‘‘۔
وزیر برائے کاروبار، ولبر روس نے ’سی این بی سی‘ کو بتایا کہ ’’مذاکرات کے ذریعے گولیاں چلنا بند ہوجاتی ہیں۔۔۔ اس لیے یہ ہرگز حیران کُن امر نہیں ہوگا کہ اس کا توڑ مذاکرات کی صورت میں نمودار ہو‘‘۔
اِس ہفتے کے آغاز پر امریکہ اور چین کے مابین ’جیسے کو تیسا‘ کی نوعیت کے تجارتی لے دے جاری ہے۔ پیر کے روز، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسٹیل اور الیمونئیم پر محصولات عائد کیے جانے کے جواب میں، چین نے 128 امریکی مصنوعات پر 25 فی صد تک کے محصول عائد کرنے کا اعلان کیا، جن میں میوہ جات، سور کا گوشت، شراب، اسٹیل اور الیمونئیم شامل ہے۔
اُسی روز شام کو امریکی تجارتی نمائندے نے چین سے درآمد ہونے والی 1300 اشیا پر محصول میں اضافے کی تجویز دی، جن میں زیادہ تر ایئرواسپیس، طب اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مصنوعات شامل ہیں۔
بارہ گھنٹے سے کم وقت بعد، چین نے جوابی اقدات کے طور پر سیاسی اعتبار سے حساس 106 امریکی مصنوعات پر 25 فی صد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا جن میں سے سویابین، آٹومائیلز اور ایئرکرافٹ شامل ہیں۔