امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنے درمیان اختلافات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے 'این بی سی' نے بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ٹلرسن صدر ٹرمپ سے شدید اختلافات کے بعد جولائی میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے والے تھے لیکن نائب صدر مائیک پینس نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔
'این بی سی' نے اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ جولائی ہی میں محکمۂ دفاع کے اعلیٰ حکام کے ساتھ پینٹاگون میں ایک ملاقات کے دوران وزیرِ خارجہ نے امریکی صدر کو "احمق" بھی قرار دیا تھا۔
بدھ کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ریکس ٹلرسن نے اس خبر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ اور امریکہ کی کامیابی کے لیے اب بھی اتنے ہی پرعزم ہیں جتنے وہ وزیرِ خارجہ کا عہدہ سنبھالتے وقت تھے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی مستعفی ہونے کا سوچا ہی نہیں لہذا نائب صدر کے انہیں استعفیٰ دینے سے روکنے کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تاہم جب صحافیوں نے وزیرِ خارجہ سے اس بارے میں سوال کیا کہ کیا انہوں نے واقعی صدر ٹرمپ کو احمق کہا تھا، تو ٹلرسن نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا۔
اس کے برعکس انہوں نے صدر ٹرمپ اور ان کی خارجہ پالیسی کے اہداف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنا نہیں چاہتے۔
اس سے قبل امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان ہیتھر نوارٹ نے ٹلرسن کی جانب سے صدر ٹرمپ کو احمق کہنے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیرِ خارجہ اس طرح کی زبان استعمال نہیں کرتے۔
صدر ٹرمپ نے ٹلرسن کا بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ کی جانب سے ان کی تعریف پر مبنی بیان ان کے لیے باعثِ فخر ہے۔
بدھ کو امریکی ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگاس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے 'این بی سی' کی رپورٹ کو "جھوٹی خبر" قرار دیتےہوئے کہا کہ انہیں ریکس ٹلرسن پر مکمل اعتماد ہے۔
امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ایک مشیر جیرڈ ایگن نے بھی وائس آف امریکہ کو بھیجے جانے والے اپنے تحریری بیان میں نائب صدر کی جانب سے 'این بی سی' کی رپورٹ کی تردید کی ہے۔
'این بی سی' کی یہ رپورٹ صدر ٹرمپ کے اس بیان کے چند روز بعد ہی سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے وزیرِ خارجہ کو شمالی کوریا کے مسئلے پر "اپنا وقت ضائع نہ کرنے" کی ہدایت کی تھی۔
اپنی ٹوئٹس میں صدر ٹرمپ نے ٹلرسن کو کہا تھا کہ وہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش پر اپنی توانائی ضائع نہ کریں کیوں کہ امریکہ کو جو کرنا ہوگا، وہ کر گزرے گا۔
صدر ٹرمپ نے یہ ٹوئٹ ایسے وقت کیے تھے جب سیکریٹری ٹلرسن بیجنگ میں چین کی قیادت کے ساتھ شمالی کوریا اور دیگر معاملات پر بات چیت میں مصروف تھے۔
صدر ٹرمپ کے ان ٹوئٹس پر امریکہ کے سیاسی اور صحافتی حلقوں نے سخت ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔