منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ دو ہفتے بعد عہدہٴ صدارت سنبھالیں گے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کا مذاق اُڑا رہے ہیں، ملک کے قومی دھارے سے تعلق رکھنے والے ذرائع ابلاغ پر نکتہ چینی کر رہے ہیں، اور ساتھ ہی، صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ٹرمپ جائیداد کے ارب پتی کاروباری شخص تھے، اور اب ری پبلیکن پارٹی کے سیاست داں ہیں۔ اُنھوں نے بدھ کے روز ٹوئٹر پر متعدد پیغامات بھیجے، جن میں سوال کیا گیا آیا ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی ’’اتنی غیر محتاط‘‘ کیوں تھی کہ ہیلری کلنٹن کی صدارتی انتخابی مہم کے سربراہ، جان پوڈیسٹا کی ہزاروں اِی میلز ہیک ہوئیں، اور ری پبلیکن نیشنل کمیٹی کی طرح اُنھوں نے ’’ہیکنگ سے بچنے کا نظام‘‘ کیوں نہیں اپنایا؟
پوڈیسٹا کی اِی میلز سے پریشان کُن حقائق کا پتا لگتا ہے کہ درپردہ سابق امریکی وزیر خارجہ، ہیلری کی مدد کی جا رہی تھی، تاکہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی جیت سکیں، جب کہ اُنھیں آخر کار نومبر میں ٹرمپ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
منتخب امریکی صدر نے ’وکی لیکس‘ کے بانی جولیاں اسانج کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’’ایک 14 برس کا بچہ بھی پوڈیسٹا کو ہیک کرسکتا تھا‘‘، اور یہ کہ ’’روسیوں نے مجھے کوئی اطلاع نہیں دی‘‘۔ اسانج نے جسمانی تشدد کے الزامات سے بچنے کے لیے، لندن میں اکوئاڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے رکھی ہے۔
آٹھ نومبر کے انتخابات سے پہلے، وکی لیکس نے پوڈیسٹا کی ہزاروں اِی میلز جاری کی تھیں۔ لیکن، افشا کی گئی اِن اِی میلز کا ذریعہ نہیں بتایا۔
ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، لِنڈسی گراہم، ٹرمپ کے ناقد ہیں۔ اِس بات پر کہ ہیکنگ کیسے ہوئی، اُنھوں نے اسانج کی باتوں پر انحصار پر شدید تنقید کی۔
ٹوئٹر پر ایک پیغام میں، گراہم نے کہا ہےکہ ’’اسانج کا ریکارڈ یہ رہا ہے کہ اُنھوں نے امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی امریکی جولیان اسانج کی کسی بات کو قابلِ بھروسہ قرار دے سکتا ہے۔ کسی امریکی کو اُن کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیئے‘‘۔