برطانیہ کے عام انتخابات سے دور رہنے کا عہد کرتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے دورے کا آغاز کردیا ہے۔ یہ انتخابات 12 دسمبر کو منعقد ہوں گے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’’اس متعلق میرے ذہن میں کوئی ابہام نہیں۔ اس عظیم ملک کے لیے یہ انتہائی اہم انتخاب ہوگا۔ لیکن، اس کے بارے میں کوئی رائے زنی نہیں کروں گا۔‘‘
صدر ٹرمپ نے یہ بات منگل کو نیٹو کے سیکریٹری جنرل ژاں اسٹولٹن برگ سے ملاقات کے بعد کی۔ نیٹو کے سربراہ اجلاس کے لیے رکن ملکوں کے قائدین لندن میں اکٹھے ہوئے ہیں۔
تاہم امریکی صدر برطانوی وزیراعظم کے بارے میں کہا، ’’بورس جانسن انتہائی باصلاحیت ہیں اور میرے خیال میں وہ اچھا کام کریں گے۔‘‘
ایک حالیہ انٹرویو میں جانسن نے صدر ٹرمپ کو خبردار کیا تھا کہ وہ ان کے نام کی توثیق نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ یہی بہتر ہے کہ ’’کوئی بھی فریق دوسرے کی انتخابی مہم میں ملوث نہ ہو۔‘‘
اکتوبر میں ٹرمپ نے جانسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا، ’’یہی وہ شخص ہیں جو وقت کے تقاضوں پر پورے اتریں گے‘‘؛ اور یہ کہ لیبر پارٹی کے جیرمی کوربن ’’بہت ہی برے‘‘ وزیر اعظم ثابت ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو برطانیہ کے شعبہ صحت میں کوئی دلچسپی نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا، چاہے آپ یہ ہمیں چاندی کی پلیٹ پر رکھ کر کیوں نہ پیش کریں۔‘‘
برطانوی انتخابی مہم میں بورس جانسن کے حریف جیرمی کوربن نے کنزرویٹو پارٹی پر الزام لگایا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے معاملے پر اس نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ طے کر رکھا ہے۔ بورس جانسن اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
صدرٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم نیٹو سربراہان کی تقریبات میں شرکت کریں گے، لیکن یہ واضح نہیں کہ ان کے درمیان علیحدہ سے دوطرفہ ملاقات بھی ہوگی یا نہیں۔ اسٹولٹن برگ سے اپنی ملاقات کے علاوہ ٹرمپ فرانسیسی صدر امانوئیل میکخواں اور جرمن چانسلر اینگلا مرکیل کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے۔
فرانس کے صدر میکخواں سے منگل کی شام ہونے والی ملاقات سے پہلے صدر ٹرمپ نے فرانسیسی صدر کے نیٹو سے متعلق حالیہ بیان پر تنقید کی تھی، جس میں میکخواں نے کہا تھا کہ نیٹو ’’ذہنی طور پر مفلوج‘‘ ہوچکا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک ’’بے وقوفانہ بیان‘‘ ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ میکخواں کا بیان دیگر ارکان کی’’بے توقیری‘‘ کے مترادف ہے۔ بقول ان کے، ’’آپ نیٹو کے بارے میں ایسے بیانات نہیں دے سکتے۔‘‘
ماضی میں ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ نیٹو ’’ناکارہ‘‘ ہوچکا ہے اور بارہا اتحاد سے الگ ہونے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔
اسٹولٹن برگ نے منگل کو ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیت دکھانے کے ’’اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘‘ اس ضمن میں انھوں نے امریکہ کے علاوہ نیٹو کے دیگر رکن ملکوں کی جانب سے دفاعی بجٹ میں 130 ارب ڈالر کا اضافہ کرنے کا ذکر کیا اور کہا کہ سال 2024ء تک مختص کردہ رقم بڑھ کر 400 ارب ڈالر ہوجائے گی۔
بجٹ کے معاملے کو زیر بحث لانے کے علاوہ نیٹو کے سکریٹری جنرل نے بتایا کہ نیٹو سربراہان انسداد دہشت گردی کی کوششوں، تخفیف اسلحہ، روس کے ساتھ تعلقات اور چین کی ابھرتی طاقت سے متعلق امور پر گفتگو کریں گے۔
یہ سربراہ اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ٹرمپ کو ملک میں مواخذے کی کارروائی کی تفتیش کا سامنا ہے۔ انھوں نے منگل کو ڈیموکریٹس پر تنقید کی جنھیں ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی سربراہ اجلاس میں شرکت کے موقع پر سماعت جاری رکھنا نامناسب ہے۔
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سماعت کی کارروائی کے نتیجے میں دیگر سربراہان سے ملاقات میں ان کی پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے، تو صدر ٹرمپ نے کہا ’’میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے۔‘‘