امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اچانک ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا۔
خبررساں ادارے روئیٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ پچھلے سال ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کے ای میلز کے مقدمے کی تفتیش میں جیمز کونی کا کردار ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کومی اب اپنے ادارے کی قیادت نہیں کر سکتے۔
وہائٹ ہاؤ س کی جانب سے صدر ٹرمپ کے جاری کردہ ایک خط میں کہا گیا ہے کہ اب یہ ضروری ہوگیا ہےکہ ہم ایف بی آئی کی قیادت کے لیے کوئی ایسی شخصیت ڈھونڈیں جو ادارے کے قانون کے موثر نفاذ کے مشن پر اعتماد بحال کرسکے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے خط میں کہا ہے کہ انہوں نے اٹارنی جنرل جیف سیشیز کا یہ مشورہ قبول کر لیا ہے کہ کومی وفاقی بیورو کی موثر طور پر قیادت کے اہل نہیں ہیں۔
کومی اپنی انکواری کے دوران اس بحث کا نشانہ بن گئے تھے کہ آیا ہلری کلنٹن نے سابق صدر براک اوباما کے پہلے دور میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنے پرائیویٹ ای میلز سرور کا استعمال کر کے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا تھا یا نہیں۔
انہوں نے جولائی میں کہا تھا اس کیس کو مقدمہ چلائے بغیر بند کر دیا جائے، لیکن بعد میں 8 نومبر کے انتخابات سے 11 دن پہلے انہوں نے ای میلز سے منسلک ایک نیا انکشاف سامنے آنے پر مقدمے کی دوبارہ تفتیش شروع کر دی۔
ڈیموکریٹکس کا خیال ہے کہ ان کے اس فیصلے کی قیمت کلنٹن کو انتخابی نتائج کی شکل میں ادا کرنی پڑی۔
وہائٹ ہاؤس نے جیمز کومی کے اقدامات کے بارے میں ڈپٹی اٹارنی جنرل راڈ روزن سٹین کا ایک نوٹ جاری کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کی جانب سے سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی ای میلز کی تفتیش کے نتائج سے نمٹنے کے انداز کا دفاع نہیں کر سکتا اور میں اس تقریباً مسلمہ فیصلے کو قبول کرنے سے ان کے انکار کو نہیں سمجھ سکا ، کہ وہ غلطی پر تھے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے ایسے بہت سے امور کی نشاندہی کی ہے جہاں کومی نے غلطی کی۔ انہوں نے ملک کی انتہائی حساس فوجداری تفتیش کے بارے میں محکمہ انصاف کے باضابطہ طور پر مقرر کردہ عہدے داروں کی اجازت کے بغیر خود اپنے نتائج کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایک مسترد کی گئی فوجداری تفتیش کے بارے میں معلومات جاری کر نے کے لئے ایک پریس کانفرنس کر کے ایک اور پرانے اصول کو نظر انداز کیا۔
کومی نے گذشتہ بدھ کو سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کو ایک سماعت کے دوران بتایا کہ انہیں یہ سوچ کر کہ ہلری کلنٹن کی ای میلز کا مقدمہ دوبارہ شروع کرنے کے میرے اعلان نے 2016 کے صدارتی انتخابات کو متاثر کیاتھا، برا لگا تھا، لیکن مجھے اس پر کوئی پچھتاوے نہیں ہیں اور میں دوبارہ بھی یہی فیصلہ کروں گا۔