صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب سے ٹھیک ایک سال پہلے 20 جنوری، 2017 کو امریکہ کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے پیشرو صدور سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اُن کے پہلے سال نے یہ بات بخوبی ثابت کر دی۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا وہ اسی انداز میں اپنے پیش رو صدور سے مختلف رہے جس کی جانب اُنہوں نے اشارہ کیا تھا؟
امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ نکولس برنز کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ’’امریکہ پہلے‘‘ کی پالیسی کے سبب اُن کا پہلا سال گزشتہ 70 سال کے دوران منتخب ہونے والے امریکی صدور کی اندرونی پالیسی اور خارجہ حکمت عملی سے یکسر مختلف رہا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کو کمزور کر دیا ہے اور وہ اسے منفی سمت کی جانب لے گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ہمارے کچھ اتحادیوں کے ساتھ رابطوں کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ نکولس برنز کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے تمام پیش رو صدور کی اقتدار کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے جنہوں نے خود کو نہ صرف مغربی دنیا بلکہ دنیا بھر کی جمہوری قوتوں کے اعلیٰ ترین لیڈر کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔
معروف صحافی اور کالمنسٹ مائیکل گرسن کہتے ہیں کہ ’’صدر ٹرمپ کے پہلے سال کے دورن جتنی بھی کامیابیاں سامنے آئی ہیں، وہ رپبلکن پارٹی کے روایتی پایسی سازوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہیں جبکہ تمام تر ناکامیاں خود اُن کے اپنے کردار کی وجہ سے ہیں اور مستقبل میں بھی اس صورت حال میں کسی تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں ہیں‘‘۔
لہذا، مجموعی طور پر، صدر ٹرمپ کا پہلا سال کیسا رہا، آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں۔
گزشتہ 12 ماہ کے دوران اُنہوں نے اپنے کچھ مقاصد یقیناً حاصل کئے۔ بے روزگاری کی شرح گزشتہ 17 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی اور اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی کا رجحان رہا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے جسٹس نیل گورسچ کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا۔
تاہم اب بھی صدر ٹرمپ کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران کئے گئے بہت سے وعدے پورے نہیں ہو سکے جن میں میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار کھڑی کرنے، اوباما کیئر کو منسوخ کرنے اور ٹیکسوں میں اصلاحات کے وعدے بھی شامل ہے۔
خارجہ پالیسی کے شعبے میں بھی بڑے چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم مالکوم ٹرن بل، جرمن چانسلر اینجلا مرکل اور خاص طور پر شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے بیانات خاصے متنازعہ رہے۔ اُنہوں نے کسی کو ’پاگل‘ قرار دیا تو کسی کو ’راکٹ مین‘ کہہ کر پکارا۔ لیکن جاپان، جنوبی کوریا اور کینڈا سمیت متعدد ممالک کے وزرائے اعظم کے ساتھ وہ قریبی تعلق قائم کرنے کی کامیاب رہے۔
اُدھر امریکی صدارتی انتخاب میں مبینہ روسی مداخلت کی تحقیقات اور ٹرمپ کے قریبی معاونین اور رپبلکن پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختیارات کی رسا کشی بھی پریشانی کا باعث رہی ہے۔
یوں صدر ٹرمپ کا پہلا سال کامیابیوں اور ناکامیوں کا ایک امتزاج پیش کرتا ہے۔ آ ئیے پہلے اُن کی نمایاں کامیابیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ قانون سازی کے شعبے میں اُن کی بڑی کامیابی رپبلکن پارٹی کی طرف سے پیش کردہ ٹیکسوں میں کمی کے بل کی کانگریس سے منظوری تھی۔ اس بل میں کارپوریٹ ٹیکس 35 فیصد شرح سے کم کر کے 21 فیصد کی شرح پر لایا گیا۔ اس کے علاوہ انفرادی ٹیکسوں کی شرح میں کچھ کمی کی گئی۔ یہ 1986 کے بعد سے ٹیکسوں کے حوالےسے سب سے بڑی قانون سازی تصور کی جاتی ہے۔ تاہم، ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کے نظام میں تبدیلیوں سے عام شہریوں کو مقابلے میں امیر لوگوں کو کہیں زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے اپریل 2017 میں سپریم کورٹ کے جج اینٹونن سکالیا کے انتقال کے بعد جج نیل گورسچ کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا اور یوں اس تقرر کے ساتھ ڈیموکریٹس اور رپبلکن پارٹی کے درمیان اس حوالے سے جاری شدید محاذ آرائی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ امریکی سنیٹ نے فیڈرل اپیلز کورٹ کیلئے صدر ٹرمپ کی طرف سے نامزد کردہ 12 ججوں کی منظوری دی جو کسی بھی صدر کی طرف سے پہلے سال کے دوران ریکارڈ تقرریاں ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے سال کے دوران ضابطوں میں رد و بدل کے سلسلے میں بھی متعدد اقدامات کئے۔ اُنہوں نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے چھوٹے کاروباروں کیلئے موجود ضابطوں کو کم کرنے کی منظوری دی اور شفاف توانائی کے منصوبے کو منسوخ کرنے کے سلسلے میں اقدامات جاری رکھے۔ یہ منصوبہ سابق صدر اوباما کے دور میں ترتیب دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے بحر منجمد شمالی اور خلیج میکسیکو میں تیل کی تلاش کی کوششوں کو آگے بڑھایا۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے Keystone XL Pipeline نامی کمپنی کو تیل کے کنوؤں کی کھدائی کیلئے اجازت نامہ جاری کیا۔ سابق صدر اوباما نے اس کمپنی کو اجازت نامہ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق معیشت کو متاثر کرنے والے ضابطوں میں تبدیلیاں کیں۔ تاہم، ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے موسمیاتی تبدیلیوں کے معاہدے سے نکل جانے پر صدر ٹرمپ کو شدید طور پر ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے دنیا بھر میں امریکہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ امریکہ میں متعدد مقامی حکومتوں نے صدر ٹرمپ کے پیرس معاہدے سے نکل جانے کے فیصلے کو روکنے کیلئے اقدامات کئے۔
صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امیگریشن پر کنٹرول کو سخت کریں گے، تاکہ امریکیوں کیلئے روزگار کا تحفظ فراہم ہو اور امریکی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔
عہدہٴ صدارت سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد اُنہوں نے سات مسلمان ممالک سے امیگریشن پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی۔ اس پابندی کے خلاف امریکہ بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بہت سی مقامی عدالتوں نے بھی یہ پابندی معطل کر دی۔
تاہم، پہلا سال مکمل ہوتے ہوتے یہ پابندیاں بڑی حد تک نافذ العمل ہو چکی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے بارڈر سیکورٹی کو بھی سخت کر دیا جس کے نتیجے میں سرحدوں سے امریکی سرزمین پر غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی گرفتاریوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ مبصرین کے مطابق، یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سرحدوں سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی تعداد میں حقیقی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔
ٹرمپ کے پہلے برس کے دوران امریکہ میں موجود غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف چھاپوں اور پکڑ دھکڑ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے دنوں ہوم لینڈ سیکورٹی کے حکام نے ملک بھر میں 98 سیون الیون سٹوروں پر بھی چھاپے مارے ہیں جن میں مبینہ طور پر غیر قانونی تارکین وطن بھی کام کر رہے تھے۔ تاہم، صدر ٹرمپ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں کر سکے۔
ٹرمپ انتظامیہ کینڈا اور میکسیکو کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کی از سر نو نئی شرائط کے مطابق تجدید کرنے کے سلسلے میں اقدامات کرتی رہی ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ سال کے دوران ممکنہ طور پر ٹرمپ یہ معاہدہ بھی کلی طور پر منسوخ کر دیں گے۔
صدر ٹرمپ کا ایک اور وعدہ سابق صدر اوباما کی طرف سے کیوبا کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے عمل کو ختم کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ٹرمپ نے کیوبا کے خلاف سفر اور تجارت کے شعبوں میں پابندیاں سخت کر دی ہیں۔
داعش کے خلاف جنگ کے حوالے سے ٹرمپ نے بڑی حد تک اوباما کی پالیسیاں جاری رکھیں اور عراق اور شام میں داعش کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ اس دوران داعش ان دونوں ملکوں میں اپنے دو خود ساختہ دارالحکومتوں موصل اور رقعہ سے انخلا پر مجبور ہوگئی۔ اُنہوں نے مشرق وسطیٰ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملوں میں اضافہ کیا۔ بعض تجزیہ کار اسے دہشت گردی کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔
یوں اپنے عہدہٴ صدارت کے پہلے سال کے دوران صدر ٹرمپ کی مجموعی کارکردگی حوصلہ شکن رہی ہے اور اُن پسندیدگی کی ریٹنگ انتہائی کم رہی ہے۔ لیکن، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہر صدر کے پہلے سال کے دوران پسندیدگی کی ریٹنگ کم رہتی ہے کیونکہ اُن کیلئے اپنے انتخابی وعدوں کو جلد پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم، صدر ٹرمپ کے حوالے سے ناپسندیدگی کی شرح پسندیدگی کے مقابلے میں کہیں کم رہی۔