منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان نے کہ امریکہ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ایک چین پالیسی کی پابندی کرے، ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ پالیسی واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور کئی تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ آیا اس بیان کا مقصد تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات پر پھر سے غور کرنا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی صدرات کے دوران جمہوری انداز میں چلائے جانے والے ملک تائیوان میں تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے، لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کو اپنے وسیع تر شعبوں میں ایک دوسرے کی کتنی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے اتوار کے روز فاکس نیوز کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ ہم پر ایک چین پالیسی کی پابندی کیوں ضروری ہے ۔
امریکہ نے 1979 میں تائیوان کے ساتھ اپنے رابطے منقطع کرکے چین کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے اور کمیونسٹ قیادت کے تحت چین کی حکومت کو ’ ایک چین ‘کے طور پر تسلیم کیا تھا۔
بیجنگ کے نقطہ نظر سے ایک چین کا مطلب یہ ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے۔ امریکہ اس چیز کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ تائپے کے ساتھ اپنے تجارتي اور ثقافتی رابطے بھی قائم رکھے ہوئے ہے۔ وہ تائیوان کو فوجی ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے کہ کئی ایک کا کہنا ہے کہ ان تعلقات میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔
تائیوان کے صدر تسائی انگ ون ٹیلی فون پر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے بعد وہ واشنگٹن کی بیجنگ کی جانب منتقلی کے بعد پہلی ایسی صدر بن گئیں جن کی کسی امریکہ منتخب عہدے دار سے ہوئی ۔
بیجنگ کے ایک تبصرہ نگار اور تاریخ دان ژانگ لفان کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ ایک چین پالیسی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ اور ٹرمپ تائیوان کو تسلیم کر لیں گے اور بیجنگ کے ساتھ تعلقات توڑ دیں گے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ وہ تائیوان کے ساتھ اپنے رابطوں میں اضافہ کریں۔
ہانگ کانگ کی بپٹسٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کی ایک ماہر جین پیری کا کہنا ہے کہ امریکہ تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات مزید شفاف بنانا چاہے گا۔ اور وہ یہ بھی چاہیں گے کہ یہ تعلقات ریاستوں کی سطح پر استوار ہوں۔
امریکہ نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات ایک ایسے وقت میں قائم کیے تھے جب بیجنگ اور تائپے دونوں جگہ آمرانہ حکومتیں تھیں۔ لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ تائیون ایشیا کی سب سے فعال جمہوری حکومتوں کی صف میں شامل ہوگیا اور دونوں ملکوں کے سیاسی راستے ایک دوسرے سے جدا ہوئے لگے۔
تائیوان کے چنگ ہوا یونیورسٹی کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر تسنگ چی ان یوان کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ ایک چین پالیسی کو سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
ژہونگ کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک امریکہ کے صدر نہیں بنے ہیں اور ان کی حیثیت ایک منتخب صدر کی ہے۔ وہ اس وقت جو چاہے کہہ سکتے ہیں۔
چین کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ایک چین پالیسی میں مداخلت سے امریکہ اور چین کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔
تائیوان بھی اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہےاور یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ اس کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔ تائیوان میں اس حوالے سے یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ ٹرمپ کی سوچ فائدے کی بجائے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ چنگ ہوا کا کہناہے کہ اس کا انحصار مستقبل کے حالات پر ہے۔
اپنی انتخابي مہم کے دوران منتخب صدر ٹرمپ نے یہ واضح اشارے دیے تھے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ منگل کے روز انہوں نے ایکسان موبل کے چیئر مین اور سربراہ ریکس ٹلرسن کو اپنے وزیر خارجہ نامزد کیا ۔ ٹلرسن کے روسی صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔