امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر صومالیہ میں تعینات امریکہ کی فوج کی اکثریت کو واپس بُلا رہا ہے۔
جمعے کو جاری بیان میں پینٹاگون کا کہنا تھا کہ صومالیہ میں تعینات فوج کی اکثریت اور اثاثوں کو آئندہ برس کے اوائل تک نکال لیا جائے گا۔
بیان میں پینٹاگون نے مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا کہ کتنے اہلکاروں کو واپس بلایا جا رہا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق صومالیہ میں تعینات لگ بھگ 700 امریکی فوجی اہلکاروں، جو کہ شدت پسند گروہ 'القاعدہ' کی ذیلی تنظیم 'الشباب' کے خلاف لڑنے کے لیے مقامی فورسز کی تربیت اور رہنمائی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں افغانستان اور عراق میں تعینات امریکی افواج میں مزید کمی کا حکم دیا تھا اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ صومالیہ سے بھی کچھ یا تمام فوجیوں کو نکالنے کا حکم دیں گے۔
امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی کا بدھ کو کہنا تھا کہ صومالیہ میں تعینات امریکی فوج کا مستقبل ابھی زیرِ بحث ہے۔
جنرل مارک ملی کا مزید کہنا تھا کہ صومالیہ میں کم تعداد میں فوج کی تعیناتی سے اخراجات میں بھی کمی ہو گی۔
جنرل مارک نے واضح کیا کہ امریکہ، الشباب سے متعلق چوکنا رہے گا۔ جو کہ ان کے بقول القاعدہ کی ذیلی تنظیم ہے۔ القاعدہ نے افغانستان سے 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملے کیے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ الشباب نہ صرف امریکہ کے لیے بلکہ صومالیہ کے لیے بھی خطرہ ہے۔
خیال رہے کہ قائم مقام امریکی سیکریٹری دفاع کرسٹوفر ملر نے بھی گزشتہ ہفتے صومالیہ کے دورے کے دوران امریکی فوجیوں سے ملاقات کی تھی۔
مبصرین کے مطابق اب دیکھنا یہ ہو گا کہ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن آئندہ برس 20 جنوری کو صدارت کا حلف اٹھاتے ہیں تو اس وقت کیا صورتِ حال ہوگی۔ آیا وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو پلٹ دیں گے یا وہ دہشت گردی سے متعلق اپنے لائحہ عمل کو دیکھتے ہوئے نئی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ صومالیہ کے پڑوسی ملک جبوتی میں بھی امریکہ کی فوج تعینات ہے۔
پینٹاگون کا بیان میں مزید کہنا تھا کہ صومالیہ سے فوج کے انخلا کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ امریکہ وہاں دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو ختم کر دے گا۔
بیان کے مطابق اس اقدام سے امریکی فوج کو مشرقی افریقہ سے باہر دوبارہ سے تعینات کیا جا سکتا ہے۔
پینٹاگون کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کو ممکنہ طور پر صومالیہ کے ہمسایہ ممالک میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ تا کہ سرحد کے پار سے ہونے والی کارروائیوں کو روکا جا سکے اور صومالیہ میں سرگرم شدت پسند تنظیموں کے خلاف دباؤ برقرار رہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی صلاحیت برقرار رکھے گا اور ممکنہ حملوں سے متعلق اطلاعات سے آگاہ رہے گا۔
صومالیہ میں الشباب کی طرف سے درپیش خطرات سے متعلق امریکہ میں بحث میں اضافہ ہو گا۔ جو کہ اپنے وسائل کو چین کی طرف سے درپیش چیلنجز کے خلاف استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔
دوسری طرف امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صومالیہ سے امریکی فوج کو نکالنے کے فیصلے پر صومالیہ کے حکام نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری ایام میں لیے گئے اس فیصلے پر حکام کی طرف سے ہفتے کو نو منتخب صدر جو بائیڈن سے اپیل کی گئی کہ وہ نظرِ ثانی کریں۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق صومالیہ کی خارجہ کمیٹی کے رکن سینیٹر ایوب اسماعیل یوسف کا ہفتے کو کہنا تھا کہ اس کشیدہ صورتِ حال میں امریکی فوج کا نکالا جانا انتہائی افسوس ناک ہے۔
سینیڑ ایوب اسماعیل یوسف کا مزید کہنا تھا کہ امریکی فوج نے صومالیہ کی افواج کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے امریکی صدر کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ٹیگ کیا۔
خیال رہے کہ صومالیہ میں تعینات امریکی فوجی، مقامی فورسز کی تربیت اور القاعدہ کی ذیلی شدت پسند تنظیم الشباب کے خلاف کارروائیوں میں مدد فراہم کر رہے تھے۔ جن کے حملوں کی وجہ سے دیگر ملکوں جیسے کینیا سمیت دیگر ممالک میں سیکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ جن میں امریکی بھی شامل ہیں۔