امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ایجنٹوں نے فلوریڈا کے پام بیچ میں واقع ان کی رہائش گاہ مار-اے-لاگو اسٹیٹ پر چھاپہ مارا ہے۔
ٹرمپ نے پیر کی شام اپنے ایک طویل بیان میں کہا کہ ''فلوریڈا کے پام بیچ میں واقع میرا خوبصورت گھر، مار-اے-لاگو اس وقت محاصرے میں ہے۔ اس پر چھاپہ مارا گیا ہے اور ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ایک بڑے گروپ نے وہاں قبضہ کر رکھا ہے۔''
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ''متعلقہ سرکاری اداروں کے ساتھ کام اور تعاون کرنے کے باوجود میرے گھر پر یہ غیر اعلانیہ چھاپہ ضروری یا مناسب نہیں تھا۔''
میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق صدر کے گھر کی تلاشی لی گئی ہے، تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ تلاشی کے اسباب کیا تھے۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ محکمۂ انصاف جنوری 2021 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد ان کی جانب سے فلوریڈا کی رہائش گاہ پر لے جانے والے ریکارڈ باکس میں موجود خفیہ معلومات کے بارے میں تحقیقات کر رہا ہے۔
سابق صدر ٹرمپ پیر کے روز نیویارک شہر میں تھے، جنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے گھر پر چھاپہ کیوں مارا گیا۔ تاہم ایف بی آئی اور محکمۂ انصاف کے عہدے داروں نے ٹرمپ کے بیان پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
محکمۂ انصاف کی ترجمان ڈینا ایورسن نےخبر رساں ادارے ' ایسوسی ایٹڈ پریس' کی جانب سےتلاشی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر کچھ کہنے سے انکار کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ایورسن نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ آیا اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے ذاتی طور پر چھاپہ مارنے کی اجازت دی تھی؟
چھاپے کے معاملے سے واقف ایک شخص نے ، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ چھاپہ پیر کی صبح مارا گیا۔
ؒخیال رہے کہ رواں سال کے شروع میں نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈز ایڈمنسٹریشن نے کہا تھا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ ٹرمپ کی فلوریڈا میں واقع مار-اے-لاگو رہائش گاہ پر 15 باکسز میں کلاسیفائیڈ مواد موجود ہے۔ جس کے بعد اس نے یہ معاملہ محکمۂ انصاف کو بھیج دیا تھا۔
سن 1978کے صدارتی ریکارڈ ایکٹ کے تحت تمام صدارتی ریکارڈ عوام کی ملکیت تصور ہوتا ہے اور صدر کی جانب سے اپنا عہدہ چھوڑتے ہی، ان کے دفتر کا تمام ریکارڈ خود بخود نیشنل آرکائیوز کی تحویل میں چلا جاتا ہے۔ تمام صدارتی لائبریریاں اور عجائب گھر بھی نیشنل آرکائیوز کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔
نیشنل آرکائیوز ایجنسی کے قائم مقام ڈپٹی چیف آپریٹنگ آفیسر میگھن ریان گوتھورن نے اس سال کے شروع میں وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ''صدارتی ریکارڈ حکومت کی ملکیت ہےاور ان کا انتظام نیشنل آرکائیوز کی ذمہ داری ہے۔لہٰذا، تمام صدارتی کاغذات، مواد اور نیشنل آرکائیوز کی تحویل میں موجود ریکارڈز، چاہے وہ عطیہ کیے گئے ہوں، ضبط کیے گئے ہوں یا صدارتی ریکارڈز ایکٹ کے تحت حاصل کیے گئے ہوں، وفاقی حکومت کی ملکیت ہیں۔"
سابق صدر ٹرمپ نے حکومت پر 'استغاثہ کی بدانتظامی' کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ چھاپہ "انصاف کے نظام کو ہتھیار بنانےکے مترادف ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے امریکہ کے کسی صدر کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
ٹرمپ نےدعویٰ کیا کہ ایف بی آئی کے ایجنٹس ان کے گھر میں موجود سیف میں بھی گھس گئے۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ٹرمپ 2024 میں ممکنہ صدارتی انتخاب کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ ممکنہ طور پر خود کو صدر جو بائیڈن کے خلاف دوبارہ مقابلے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈیموکریٹس پر الزام لگایا کہ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ وہ دوبارہ انتخاب لڑیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ انہیں چھاپے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔
البتہ محکمۂ انصاف ٹرمپ کی صدارت کے اختتام پر ان کی فلوریڈا اسٹیٹ سے سرکاری صدارتی ریکارڈ منتقلی کی تحقیقات کر رہا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس چھاپے کا اس تفتیش سے کوئی تعلق ہے۔
ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ امریکی نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈز ایڈمنسٹریشن کو کچھ ریکارڈ واپس کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اسے ''ایک عام اور معمول کا عمل''قرار دیا تھا۔
محکمۂ انصاف 2020 کے صدارتی انتخابات اور 6 جنوری 2021 کو نتائج الٹنے کے لیے کیپٹل ہل پر حملے کے حوالے سے ٹرمپ کے اتحادیوں کی کوششوں کے بارے میں بھی تحقیقات کر رہا ہے۔
اس رپورٹ کے لیےڈورا میکوار نے تعاون کیا جب کہ کچھ مواد خبر رساں اداروں ' ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے ۔