امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنے انکار کردیا ہے ۔ امریکی انتظامیہ نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے نام ایک مکتوب میں اس فیصلے سے مطلع کیا۔
اطلاعات میں کہاجارہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے مصروفیات کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ وہ یوم جمہوریہ کے موقع پر ہونے والی تقریبات کے دنوں میں اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کریں گے ۔ خط میں شرکت سے معذرت پر اظہار افسوس کیا گیا ہے۔
اگست کے اوائل میں وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمیں بھارت کے دعوت نامے کا علم ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوا ۔
بھارت کی جانب سے اس سلسلے میں تا حال کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے ہی صدر کے دورے کی تفصیلات بتائی جا سکتی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے امریکی اہلکار اس بات کا اشارہ دے رہے تھے کہ چونکہ انھی دنوں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب ہونے والا ہے اس لیے صدر کا دورہ بھارت یقینی نہیں ہے۔
ایک سینئر تجزیہ کار رہیس سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی امریکہ فرسٹ کی جو پالیسی ہے، مذکورہ فیصلہ اس کا شاخسانہ ہے۔ امریکی صدر کے نزدیک اپنے ملک کے مفادات پہلے ہیں۔
رہیس سنگھ کے خیال میں ممکن ہے کہ بھارت کے بعض حالیہ فیصلے اس کی وجہ بنے ہوں لیکن اس سے باہمی رشتوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔
بل کلنٹن کے دور سے بھارت اور امریکہ ایک اسٹریٹجک شراکت داری سے جامع شراکت داری کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کلنٹن اور اوبامہ نے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرکے باہمی رشتوں کو استحکام بخشا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے سے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
عام طور پر یہ ہوتاہے کہ جب کوئی سربراہ مملکت تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت پر آمادگی ظاہر کرتا ہے تبھی اسے دعوت نامہ بھیجا جاتا ہے لیکن بھارت نے اس سے قبل ہی صدر ٹرمپ کو دعوت نامہ بھیج دیا تھا۔ بعض سابق سفارت کاروں نے اس دعوت نامہ کو عام کرنے پر حکومت پر نکتہ چینی کی ہے۔