امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے اپنے دعوے کو دہرایا ہے لیکن اس بارے میں کسی طرح کے شواہد پیش نہیں کیے۔
ٹوئٹر پر وہ لکھتے ہیں کہ "اگر آپ لاکھوں لوگوں کی طرف سے غیر قانونی طور پر ڈالے گئے ووٹ منہا کر لیں" تو بھی وہ ڈیموکریٹ ہلری کلنٹن کو پاپولر ووٹ میں شکست دے دیتے۔
اس پیغام کے چار گھنٹوں بعد انھوں نے ان تین ریاستوں کے نتائج پر سوال اٹھایا جن میں انھیں کلنٹن سے شکست ہوئی تھی۔
ٹرمپ لکھتے ہیں کہ "ورجینیا، نیو ہمپشائر اور کیلیفورنیا میں ووٹوں میں سنگین بے ضابطگیاں ہوئیں۔۔۔میڈیا اس پر رپورٹ کیوں نہیں کرتا۔"
انھوں نے ذرائع ابلاغ پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے اسے ایک بڑی مشکل قرار دیا۔
ٹرمپ نے ملک میں رائج الیکٹورل کالج نظام کے تحت درکار 270 ووٹوں سے زائد حاصل کر کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم انھیں مجموعی طور پر 20 لاکھ کم ووٹ ملے تھے۔ وہ 20 جنوری کو منصب صدارت سنبھالنے جا رہے ہیں۔
انتخابات سے قبل بھی وہ انتخابی نظام میں دھاندلی اور بے ضابطگی سے متعلق بیانات دیتے رہے ہیں لیکن اس بارے میں کبھی انھوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ان کے دعوؤں کی تسکین ہو سکے۔
اکتوبر میں انھوں نے کہا تھا کہ میڈیا کے ذریعے انتخاب میں دھاندلی ہو رہی ہے جب کہ کلنٹن کے حق میں "مختلف پولنگ اسٹیشنز پر ایسا ہی ہو رہا ہے۔"
کیلیفورنیا کے سیکرٹری آف اسٹیٹ ایلکس پاڈیلا نے ٹرمپ کے تازہ بیان کو "بے بنیاد اور بے سود" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ غیرذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "ایسا لگتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ اس حقیقت سے پریشان ہیں کہ امریکیوں کی اکثریت نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔ کیلیفورنیا اور دیگر جگہوں میں ووٹرز کی دھاندلی کے ان کے غیر مصدقہ الزامات مضحکہ خیز ہیں۔"
گرین پارٹی کی صدارتی امیدوار جل سٹیئن کی طرف سے مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی مہم، جسے بعد ازاں ہلری کلنٹن کی بھی حمایت حاصل ہو گئی، پر بھی ٹرمپ شدید تنقید کر چکے ہیں۔