رسائی کے لنکس

بنوں میں حساس مقامات عسکریت پسندوں کے لیے آسان ہدف کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی فوج نے بنوں میں محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی عمارت پر عسکریت پسندوں کا قبضہ دو دن بعد ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے 25 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ فوج کے مطابق آپریشن میں سات عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالے جب کہ تین کو گرفتار کیا گیا۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب بنوں میں عسکریت پسندوں نے سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہو۔ اس سے قبل 2012 میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بنوں کی سینٹرل جیل پر حملہ کیا گیا۔

ٹی ٹی پی نے 2012 میں جیل توڑنے کی کارروائی میں لگ بھگ 400 قیدیوں کو چھڑایا تھا۔ان میں صدر پرویز مشرف پر حملہ کرنے کے جرم میں بنوں جیل میں قید عدنان رشید بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ بنوں میں ٹارگٹ کلنگ اور پولیس تھانوں پر حملے بھی تواتر سے ہوتے رہے ہیں، جس کے بعد سیکیورٹی ماہرین یہ بحث کر رہے ہیں کہ تاریخی اور جغرافیائی حقائق معلوم ہونے کے باوجود بنوں جیسے حساس علاقے کو مطلوبہ سیکیورٹی کیوں فراہم نہیں کی جاتی؟

پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ بنوں میں قائم سی ٹی ڈی جیسے سینٹرز میں فوج کی جانب سے آپریشن کے دوران زیرِ حراست آنے والے افراد کو بنوں میں ہی رکھا جاتا ہے۔

پاک فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان یا اس سے ملحقہ علاقوں میں گرفتار کیے جانے والے اکثر عسکریت پسندوں کو بنوں یا ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی رکھا جاتا ہے البتہ یہ دونوں مقامات ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے رہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا مزید کہنا تھا کہ 2012 میں بنوں سینٹرل جیل پر کیے جانے والے حملے کے بعد سیکیورٹی ایجنسیوں کے کردار پر سوالات اٹھے تھے لیکن اس حوالے سے تحقیقات یا سزاوں کسی کو علم نہیں ہے۔ ان کے بقول اب سی ٹی ڈی کی عمارت پر حملے کے بعد پھر سے وہی سوالات اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ بنوں کی سرحدیں شمالی وزیرستان سے جڑی ہوئی ہیں، جب شہر کو مکمل سیکیورٹی فراہم نہیں کی جاتی ہے تو پھر خطرناک دہشت گردوں کو یہاں کیوں رکھا جاتا ہے؟

انہوں نے سیکیورٹی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سی ٹی ڈی عمارت کے واقعے نے ایک مرتبہ پھر سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کے پول کھول دیے ہیں کیوں کہ یہ جگہ بنوں چھاؤنی کے اندر واقع ہے، جہاں پر فوج اور پولیس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام خفیہ اداروں کے دفاتر بھی بنوں میں ہیں۔

دوسری جانب سابق سیکریٹری دفاع اور کور الیون کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کا کہنا ہے کہ بنوں فوجی چھاؤنی ضرور ہے البتہ یہاں کے زیادہ تر فوجی دیگر علاقوں میں آپریشن کے لیے تعینات ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین نے بتایا کہ بنوں شمالی وزیرستان کے گیٹ وے پر موجود ہے، اس لیے دہشت گردوں کے لیے اسے نشانہ بنانا دیگر علاقوں کی نسبت آسان ہے۔

ان کے مطابق بنوں میں بھی زیادہ تر لوگ قریبی علاقوں کے ہی مقیم ہیں۔ اس لیے انہیں وہاں چھپنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔

سابق سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ بنوں کے عوام کی سوچ اور فکر روایتی طور پر مذہبی ہے، اس لیے عسکریت پسندوں کے لیے ان کو اکسانا کسی حد تک آسان ہے۔

بنوں میں سرکاری تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے آصف یاسین کا کہنا تھا کہ بنوں افغانستان کے صوبہ خوست کے قریب ہے، اس لیے دہشت گردوں کے لیے وہاں سے آنا اور جانا آسان رہتا ہے۔ اس لیے ملک کے باقی ماندہ علاقوں کی نسبت بنوں کو نشانہ بنانا آسان ہے۔

بنوں سے ملحقہ جانی خیل کو خطرناک علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں 2001 میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ کو مطلوب القاعدہ کے جنگجو اور طالبان کےرہنما جانی خیل میں ہی مقیم رہے تھے۔

پاکستان فوج نے بھی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف جانی خیل میں ملٹری آپریشن کیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسی آپریشن کے دوران حراست میں لئے گئے جنگجوؤں کو بنوں کے سی ٹی ڈی سینٹر میں رکھا گیا تھا۔

بنوں کا شمار خیبر پختونخوا کے ترقی یافتہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ملک کی سیاست میں متحرک جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم خان درانی کا تعلق بھی بنوں سے ہی ہے۔بنوں کی آبادی 10 لاکھ سےسے زائدہے۔ شمالی وزیرستان اور لکی مروت کے انتظامی امور بھی یہیں سے چلائے جاتے ہیں۔

ضلع بنوں کی سرحدیں ضلع کرک، شمالی وزیرستان اور لکی مروت سے ملتی ہیں۔ اس لیے افغانستان کے صوبہ پکتیا، پکتیکا اور خوست کے افراد کا گزر پاکستان میں داخلے کے بعد بنوں سے ہوتا ہے۔ بنوں میں بنوسی، وزیر، داوڑ اور خٹک قوم آباد ہے۔

بنوں میں تعینات ایک خفیہ ادارے کے اعلیٰ افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سی ٹی ڈی سینٹر بنوں اور میرانشا سے لگ بھگ 200میٹر کے فاصلے پر ہے۔

انہوں نے سی ٹی ڈی کی عمارت کے حوالے سے بتایا کہ لگ بھگ دو کنال پر محیط یہ ایک سنگل سٹوری بلڈنگ ہے جو کہ بنوں کینٹ میں واقع ہے۔

ان کے مطابق یہ بلڈنگ سی ٹی ڈی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ کرایہ پر حاصل کی گئی تھی۔ اس میں10 کمرے ہیں اور کچھ تہہ خانے بھی ہیں، جہاں پر دہشت گردوں اور مشتبہ افراد کو رکھا جاتا تھا۔

حالیہ کچھ عرصہ میں ٹی ٹی پی نے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پولیس پر کئی حملے کیے ہیں۔بنوں سے متصل لکی مروت میں 10 سے زائد اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں سال دہشت گردوں کی کارروائیوں میں 100 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ بنوں کے گرد ونواح لکی مروت، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں پولیس کو زیادہ نشانہ اس لیے بنایا جا رہا ہے کیوں کہ دہشت گرد سب سے پہلے ان علاقوں کے انتظامی امور کو منتشر کرنا چاہتے ہیں۔دوسرا یہ کہ پولیس اس لیے بھی آسان ہدف ہے کیوں کہ ان کی کوئی سیاسی 'اونرشپ' نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کے اہلکاروں پر جب بھی حملہ ہوتا ہے تو ان کی کمانڈ کی جانب سے بھرپور کارروائی دیکھنے میں آتی ہے جب کہ اس کے برعکس پولیس کی قیادت صرف ان کے افسران تک محدود ہے اور صوبائی سطح پر کوئی اس کی اونرشپ نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG