افغانستان میں طالبان کا کنٹرول قائم ہو جانے کے بعد کیا پاکستان کی مغربی سرحد زیادہ محفوظ ہو گئ ہے؟ کیا پاکستانی طالبان یا TTP اور ISIS اب پاکستان پر دہشت گرد حملے نہیں کر سکیں گی؟ اس بارے میں پاکستان میں تو رجائیت پائی جاتی ہے لیکن ماہرین اور تجزیہ کاروں کے درمیان اس پر اختلاف رائے ہے۔
ڈاکٹر مارون وائن بام واشنگٹن کے مڈ ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں اور افغانستان سے متعلق امور کے ماہر ہیں۔ وائس آ ف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان غلط فہمی کا شکار ہے کہ افغانستان پر طالبان کا کنٹرول قائم ہو جانے کے سبب وہ زیادہ محفوظ ہو گیا ہے۔ جب کہ ان کے خیال میں حقیقت یہ ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں کہ افغان طالبان۔ پاکستانی طالبان یا TTP کو سرحد پار کارروائیوں اور سرگرمیوں سے روکنے کے لئے کچھ کریں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ فوری طور پر تو نہیں لیکن درمیانی اور طویل مدت میں ان کی کارروائیوں کے لئے سہولت بھی فراہم کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ افغانستان پر طالبان کے اقتدار کے نتیجے میں آخر کار خود پاکستان کے بعض حصوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی صورت حال پیدا ہو گی، اور پھر پاکستان کو پچھتانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے اب اپنی سرزمین پر TTP کی کارروائیوں کو روکنا اور بھی مشکل ہو جائے گا کیونکہ انہیں اب افغانستان میں زیادہ محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ افغان طالبان اور TTP اتحادی رہے ہیں۔ ان کا ایجنڈا اور ترجیحات مختلف ہو سکتی ہیں۔ لیکن بنیادی عقائد اور نظریات کے حوالے سے وہ ایک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتداءً طالبان خود کو تسلیم کرانے اور مدد حاصل کرنے کے لئے اس بات پر بر سر عام رضامندی کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ کسی کو دوسرے ملکوں پر حملے کے لئے اپنی سر زمیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن وہ ان گروپوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ یہ گروپ وہاں پھلیں پھولیں گے۔
ان کا کہنا تھا طالبان کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں، اب اس پر امریکہ یا مغربی ملکوں کا بہت کم کنٹرول رہ گیا ہے۔ اور امریکہ اس صورت حال میں بس یہ ہی کہتا رہے گا کہ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ القاعدہ یا اسلامک اسٹیٹ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملے نہ کر پائیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا مالی امداد کے عوض بھی جس کی طالبان کو شدید ضرورت ہے۔ ان پر اثر نہیں رکھا جا سکتا؟ ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ وہ مدد تو لے لیں گے۔ لیکن اس کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو کنٹرول کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔
پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار اور سیکیورٹی کے امور کے ماہر جنرل امجد شعیب کا اس سلسلے میں نقطہ نظر ذرا مختلف تھا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں TTP فی الحال تو باز نہیں آئے گی لیکن افغان طالبان کا ان پر دباؤ رہے گا۔ جنہوں نے کمیٹی بنائی اور ان سے کہا کہ آپ پاکستان سے بات کر کے اپنے معاملات طے کریں۔ اور طالبان نے ضمانت دی ہوئی ہے کہ ان کی سر زمین سے دہشت گردی نہیں ہو گی۔ اب اس کا TTPپر کس حد تک اطلاق ہو گا یہ دیکھنا باقی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ابھی باقی ہے کہ پورے افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہوتا ہے یا نہیں۔ کوئی یونٹی گورنمنٹ بنتی ہے یا نہیں۔ آنے والے دنوں کے معاملات کا انحصار زیادہ تر ان ہی باتوں پر ہے۔ اگر وہ پورا کنٹرول حاصل نہ کر سکے تو وہ اپنے معاملات میں الجھے رہیں گے اور TTP آزادی سے کارروائیاں کرتی رہے گی۔ کیونکہ اسے بقول ان کے باہر سے فنڈنگ ملتی ہے۔
جنرل امجد کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے حوالے سے ہمسایہ ممالک ایران۔ وسطی ایشیائی مملکتیں۔ چین۔ روس اور پاکستان، سب کی تشویش دہشت گردی ہے۔ اگر افغان طالبان نے بشمول داعش اور پاکستانی طالبان کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو پناہ دی یا ان کے سلسلے میں نرمی برتی تو ان تمام ملکوں سے سخت رد عمل آئے گا۔ اور چونکہ طالبان کا اپنی بہت سی ضرورتوں کے لئے ان ممالک پر انحصار ہے، اس لئے افغان طالبان کے لئے بقول ان کے بہت مشکل ہو گا کہ وہ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں اور کسی دہشت گرد گروپ کی سرپرستی کریں۔
افغانستان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکہ اور مغرب کے پاس دو راستے ہیں۔ اوّل یہ کہ طالبان کو اپنے اعتماد میں رکھیں اور اپنی مالی قوت یا سافٹ پاور کو استعمال کر کے اپنے ساتھ رکھیں۔ اور وہاں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھیں کیونک اس وقت طالبان شدید نوعیت کی مالی مشکلات میں مبتلا ہیں اور جانتے ہیں کہ پڑوسی ممالک اتنی مالی مدد نہیں کر سکتے جتنی مغربی بلاک کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری صورت یہ ہے کہ وہاں پہلے ہی سے موجود عدم استحکام کو بڑھاوا دیا جائے۔ جو کسی کے لئے بھی اچھا نہیں ہو گا۔ اور حالات اس امر کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں کہ افغان طالبان بھی امریکہ سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور یہ ہی امن اور سلامتی کا راستہ ہو گا۔