ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کے دورے کا منصوبہ بنارہے ہیں جہاں حالیہ کچھ مہینوں کے دوران طویل عرصے سے برسراقتدار راہنماؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی تحریکیں چلی ہیں۔
ترک عہدے داروں کا کہناہے کہ وزیر اعظم کا عرب ممالک کا دورہ پیر 12 ستمبر سے شروع ہوگا ، جس میں وہ مصر، لیبیا اور تیونس جائیں گے۔
مسٹر اردوان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ مصر سے غزہ کی پٹی میں بھی داخل ہوسکتے ہیں۔
اس سال کے شروع میں ، تیونس میں ایک بڑی عوامی تحریک کے نتیجے میں صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہونا پڑا تھا ، جب کہ مصر کے صدر حسنی مبارک کے 30 سالہ دور کا خاتمہ ہوا اور لیبیا میں باغی گروپوں نے 42 سال سے برسراقتدار صدر معمر قذافی کو طرابلس چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
مسٹر اردوان کا دورہ ایک ایسے موقع پر ہورہاہے جب ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اپنی کم ترین سطح پر ہیں۔ ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ فوجی تجارت اور تعاون معطل کررہاہے اور بحیرہ روم میں اپنی فوجی نگرانی میں اضافہ کررہاہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں خرابی اسرائیل کی جانب سے پچھلے سال غزہ کی پٹی کے لیےامدادی سامان لے جانے والے ایک ترک بحری جہاز پر مہلک حملے پر معافی مانگنے سے انکار کر بعد پیدا ہوئی ہے۔
بدھ کے روز مسٹر اردوان نے اسرائیل پر الزام لگایا تھا کہ وہ دوطرفہ دفاعی معاہدوں کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہاہے۔ انہوں نے یہ الزام اسرائیل سے ڈرون طیاروں کی خرید کے ایک معاہدے کے حوالے سے لگایا۔
پچھلے سال مئی میں اسرائیلی کمانڈوز نے غزہ کی پٹی کی طرف امدادی سامان لے کر بڑھنے والے ترک جہاز کو روکنے کے لیے اس پر دھاوا بول دیاتھا۔ امدادی کارکن غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی توڑنا چاہتے تھے جس کے بارے میں اسرائیل کا کہناتھا کہ اس کی فورسز نے یہ ناکہ بندی فلسطینی عسکریت پسندوں کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے لیے کی ہے۔
اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی میں ایک ترک نژاد امریکن سمیت نو ترک امدادی کارکن ہلا ک اور کئی زخمی ہوگئے تھے۔
پچھلے ہفتے اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اسرائیلی کمانڈوز نے ترک امدادی جہاز پر حملے کے دوران ضرورت سے زیادہ اور بلاجواز طاقت استعمال کی تھی۔