رسائی کے لنکس

ترکی کا صومالیہ کی بھرپور مدد کرنے کا وعدہ


ترکی کا صومالیہ کی بھرپور مدد کرنے کا وعدہ
ترکی کا صومالیہ کی بھرپور مدد کرنے کا وعدہ

ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے قحط زدہ صومالیہ کا تاریخی دورہ کیا ہے ۔ اس طرح وزیرِ اعظم نے مشرقی افریقہ کے اس ملک کی مدد کرنے والے ملکوں میں ترکی کو اولین حیثیت دلا دی ہے۔ ترکی برِاعظم افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی بھی سخت کوشش کر رہا ہے۔

جمعے کے روز وزیرِ اعظم اردگان نے صومالیہ کے دارالحکومت موگا دیشو میں پناہ گزینوں کے کیمپوں اور ایک ہسپتال کا دورہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کا ملک صومالیہ میں اپنا سفارت خانہ پھر کھول دے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ترکی موگادیشو کے ہوائی اڈے سے شہر تک ایک سڑک تعمیر کرے گا تا کہ امدادی سامان پہنچانا آسان ہو جائے۔ اور انھوں نے نئے اسکول اور نئے ہسپتال تعمیر کرنے کے بھی وعدے کیے۔

مسٹر اردوان کے ہمراہ ان کے وزیرِ خارجہ احمت داوتوگلو ہی صومالیہ گئے ہیں اور ان دونوں کی بیویاں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ کئی عشروں میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مغربی لیڈر نے قحط زدہ اور خانہ جنگی سے چور اس ملک کا دورہ کیا ہے۔ صومالیہ کے صدر شیخ شریف احمد جب اس ہفتے کے شروع میں ترکی گئے تھے تو انھوں نے ترکی کا پیشگی شکریہ ادا کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اور ان کے اہلِ خاندان کا دورہ صومالیہ کے لوگوں کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ ان لیڈروں نے دکھا دیا ہے کہ وہ صومالیہ کے لوگوں کےمصائب اور ان کے احساسات میں شریک ہیں۔ اس سے باقی دنیا کو ایک واضح پیغام ملتا ہے۔‘‘

صومالیہ کے صدر اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کر رہے تھے۔ کانفرنس کی صدارت ترکی کے پاس ہے اور اس نے صومالیہ میں انسانی مصائب کے بحران پر توجہ دینے کے لیے یہ ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ کانفرنس میں موجود ملکوں نے 35 کروڑ ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا۔ لیکن میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر ِ اعظم اردگان نے مغربی ملکوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم دوسری طرف کے ملکوں سے کیا کہہ سکتے ہیں، جو دوسرے ملکوں سے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ یہ کس قسم کی تہذیب ہے؟ ہم جس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ اگر تمہارا ہمسایہ بھوکا ہے تو تم آرام سے نہیں سو سکتے۔‘‘

مسٹر اردگان نے اپنے الفاظ کے ساتھ نقد رقم بھی پیش کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ رمضان شریف کے ختم ہونے تک، ان کا ملک 20 کروڑ ڈالر کی رقم جمع کر لے گا جس کی اپیل انھوں نے عوام سے کی ہے۔ ترکی سے امدادی سامان ہوائی جہازوں سے پہلے ہی پہنچایا جا رہا ہے، اور سامان سے لدے ہوئے بحری جہاز صومالیہ پہنچ رہے ہیں۔ یہ امداد ایسے وقت میں دی جا رہی ہے جب ترکی ترجیحی طور پر پورے براعظم افریقہ میں اپنی سفارتی موجودگی قائم کر رہا ہے۔ ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سیلکُک انال کے مطابق ’’افریقہ کے برِاعظم میں ہم نے ایک درجن سے زیادہ سفارت خانے قائم کیے ہیں۔ ان میں بیشتر گذشتہ دو برسوں میں قائم ہوئے ہیں۔ اور ہم اس برِ اعظم میں چند اور سفارت خانے قائم کرنے والے ہیں۔ یہ سب اس برِ اعظم میں ہماری روز افزوں دلچسی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‘‘

استنبول کی گالاتاسرے یونیورسٹی کے پروفیسر محمت اردا کہتے ہیں کہ افریقہ میں ترکی کی دلچسپی کی وجہ کاروباری مفادات ہیں اور اس کے ساتھ ہی ترکی عالمی سطح پر ممتاز مقام حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ترکی کے چھوٹے چھوٹے سرمایہ کار افریقہ میں سرگرم ہیں۔ مثلاً ایتھیویا میں ان کا شمار سرمایہ لگانے والے اہم ترین گروپوں میں ہوتا ہے۔ اس رجحان کا تعلق ترکی کی اس خواہش سے ہے کہ وہ عالمی سطح پر، یا کم از کم علاقائی سطح پر، بڑی طاقت بن جائے۔‘‘

اردا کہتے ہیں کہ افریقہ کے ساتھ ترکی کی تجارت کی سطح اب بھی نسبتاً کم ہے، یعنی تقریباً دس ارب ڈالر سالانہ۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ترکی کی کمپنیوں کی نظریں طویل مدت کے کاروبار پر ہیں۔

وہ مزید کہتےہیں کہ بہت سی کمپنیاں سماجی ترقی کا کام بھی کر رہی ہیں، خاص طور سے تعلیم کے شعبے میں۔ ان کمپنیوں نے پورے برِ اعظم میں بہت سے اسکول کھولے ہیں۔ ترک کمپنیوں کی ساکھ بہت اچھی ہے، اور اس طرح افریقہ کے برِّ اعظم میں روز افزوں بین الاقوامی مقابلے میں ان کی پوزیشن مضبوط ہو گئی ہے۔

ایک طرف ترکی کی عالمی سطح پر ممتاز مقام حاصل کرنے کی کوششیں ہیں ،اور دوسری طرف یورپی یونین میں اس کی رکنیت کی کوشش بڑی حد تک ناکام ہو چکی ہے۔ ترکی میں اب روز بروز ایسی باتیں ہونے لگی ہیں کہ یورپی یونین کی رکنیت کے مقابلے میں ترکی کے عالمی مقام حاصل کرنے کے ارادے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔

XS
SM
MD
LG