جنرل بلگن بالانلی دوسرے 27 ملزمان کے ساتھ حکومت کو نقصان پہنچانے کے کوشش کے الزامات میں ایک سویلین عدالت کے سامنے پیش ہوئے ۔ تین مہینے پہلے اپنی گرفتار ی سے پہلے تک جنرل بالانلی ترک فضائیہ کے کمانڈر بننے والے تھے ۔
استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ وہ فوج کی Sledgehammer نامی سازش میں شریک تھے ۔ اگر انہیں مجرم پایا گیا، تو ان افسروں کو 20 سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے ۔اس معاملے کی چھان بین کے سلسلے میں سینکڑوں افسروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔
ترک روزنامہ تاراف ان الزامات کو افشاء کرنے میں پیش پیش رہا ہے ۔ اس اخبار کی ڈپٹی ایڈیٹر یاسمین کونگر کہتی ہیں کہ اس معاملے کی چھان بین انتہائی ضروری ہے تا کہ ترکی کی سیاست کو جنرلوں کی مداخلت سے پاک کر دیا جائے۔’’یہ چیز انتہائی اہم ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مملکت کو گندگی سے پاک کیا جائے اور ان تمام خفیہ تنظیموں کو جن کا مبینہ طور پر بہت سے جرائم میں ہاتھ ہے، بے نقاب کیا جائے ۔‘‘
Sledgehammer کیس اس مبینہ سازش کے سلسلے کا دوسرا کیس ہے۔ گذشتہ دسمبر میں، 200 افسروں پر اسی قسم کے الزامات میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔
پراسیکیوٹرز کا دعویٰ ہے ملک میں افرا تفری پھیلانے کا ایک تفصیلی منصوبہ بنایا گیا تھا جس میں اشتعال انگیزی کے ذریعے ہمسایہ ملک یونان کے ساتھ جنگ اور ترکی میں مسجدوں پر بمباری شامل تھی۔ فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت کی طویل روایت موجود ہے، اور 1960 سے اب تک وہ چار حکومتوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر چکی ہے ۔ لیکن سیاسی تجزیہ کار اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل حالدن سولمازترک کہتے ہیں کہ تفتیش کی کارروائی حکومت کی طرف سے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی کوشش ہے۔
’’اس کا مقصد ایک پارٹی کی حکومت قائم کرنا ہے۔ یہ لوگ جمہوریت پسند نہیں کرتے۔ ایک بار وہ فوج کو راستے سے ہٹا دیں گے تو پھر کوئی طاقت ایک پارٹی کی حکومت کو چیلنج نہیں کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اتنی شدت سے اس غیر منصفانہ نظامِ انصاف کی حمایت کر تی رہی ہے ۔‘‘
صفائی کے وکیلوں نے کہا ہے کہ اس سال کے شروع میں پولیس نے مجبور ہو کر یہ بات تسلیم کی تھی کہ اس نے ایک ملزم افسر کو پھانسنے کے لیے اس کے فون پر بعض نام اور فون نمبر ڈال دیے تھے۔ ملک کے اندر اور بین الاقوامی طور پر، ان تفتیشوں کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے جو چار سال سے جاری ہیں، اور آج تک کوئی بھی سزا یاب نہیں ہوا ہے ۔
فوجی افسروں کے ساتھ، جن دوسرے لوگوں پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے ان میں صحافی اور حکومت کے جانے پہچانے ناقدین شامل ہیں۔ لیکن بر سرِ اقتدار ’اے کے‘ پارٹی کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ وولکان بوذکر نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ یہ تفتیشیں سیاسی مقاصد کے لیے کی جا رہی ہیں۔’’ترکی میں عدالتیں آزا د اور غیر جانبدار ہیں۔ سب کچھ ایک نظام کے تحت طے ہوتا ہے اور آئین کے تحت، عدلیہ، انتظامیہ اور پارلیمان کے اختیارات الگ الگ ہیں۔‘‘
ترک پراسیکوٹرز نے مسلح افواج پر دباؤ کم کرنے کے کوئی اشارے نہیں دیے ہیں، اور گرفتاریاں جاری ہیں۔ اس مہینے کے شروع میں 20 سے زیادہ فوجی افسر حکومت کے خلاف ایک اور سازش کے سلسلے میں گرفتار کر لیے گئے ۔ مبینہ طور پر وہ انٹرنیٹ پر حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے میں ملوث تھے۔ ان تفتیشوں کے سلسلے میں گرفتار ہونے والے تقریباً سب لوگ جیل میں ہیں۔ بعض کو جیل میں تین برس سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ترکی کے تقریباً 10 فیصد سینیئر جنرل جیل میں ہیں۔ رٹائرڈ جنرل سولمازترک نے فوج کی کارکردگی پر اس صورتِ حال کے اثرات کے بارے میں خبر دار کیا ہے ۔’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے فوج کے مورال اور ان کی جنگی تیاری پر پہلے ہی برا اثر پڑ چکا ہے۔ کوئی اور بات کہنا غیر منطقی ہوگا۔ اتنے سارے ایڈمرل اور جنرل جیل میں ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ، ترکی کو شام کے ساتھ اپنی سرحد پر عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور کردش باغی گروپ ’پی کے کے‘ کے ساتھ لڑائی میں بھی تیزی آئی ہے ۔ اس مہینے کے شروع میں ترکی کے اعلیٰ ترین جنرلوں نے تفتیشوں کے خلاف احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے دیا۔ لیکن ان استعفوں سے فوج پر حکومت کا کنٹرول اور زیادہ مضبوط ہو گیا ہے ۔ فوج کو سویلین کنٹرول میں لانا، یورپی یونین کا بنیادی مطالبہ ہے جس میں ترکی شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن گرفتاریوں اور مقدموں کا سلسلہ ختم نہ ہونے کی وجہ سے، ان کے جائز ہونے کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔