ترکی نےپچھلے سال امدادی سامان لے کر غزہ جانے والے ترک بحری جہازوں پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے سے متعلق اقوام متحدہ کی تفصیلی رپورٹ سامنے آنے کے بعد جمعے کے روز انقرہ میں اسرائیلی سفیر کو ملک سے چلے جانے کا حکم دیتے ہوئے اس ملک کے ساتھ تمام فوجی معاہدے معطل کردیے ہیں۔
ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو نے جمعے کے روز کہا کہ ان کی حکومت اسرائیل میں اپنی سفارتی موجودگی گھٹا کر سیکنڈ سیکرٹری کی سطح پر لارہی ہے۔ یہ فیصلہ نیویارک ٹائمز میں اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے افشا کے بعد کیا گیا، جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جارہاتھا۔
شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے پینل نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل کی بحریہ کی جانب سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی قانونی ہے مگر اسرائیلی حکومت نے ان ترک بحری جہازوں کو روکنے کے لیے بہت زیادہ اورنامناسب طاقت کا استعمال کیا جو غزہ جانے کے لیے ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کررہے تھے۔
رپورٹ میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ان پر تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اسرائیل9 ترک شہریوں کو ہلاک کرنے کی تسلی بخش وضاحت پیش نہیں کرسکا، جن میں سے اکثر کوپشت پر، یا انتہائی قریب سے ایک سے زیادہ گولیاں ماری گئی تھیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پینل کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ترک بحری جہاز پر سوار ہونے والے اسرائیلی کمانڈوز نے، کچھ مسافروں کی جانب سے منظم اور نمایاں پرتشدد مزاحمت کے اپنے تحفظ کے لیے کارروائی تھی۔
اسرائیلی عہدے داروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط سے التوا میں پڑی ہوئی رپورٹ کے اجرا پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیلی کارروائی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں تھی۔
ترکی نے جمعہ کو انقرہ میں تعینات اسرائیلی سفیر کو بے دخل کرنے اور اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ گزشتہ برس پیش آنے واقعہ پر معافی مانگے۔
اسرائیل پہلے ہی معافی مانگنے کا مطالبہ مسترد کرچکا ہے اوراس کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے کی رپورٹ میں بھی اسرائیل سے واقعہ پر معافی مانگنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برعکس کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو "افسوس کا اظہار اور ہرجانے کی ادائیگی کرنی چاہیے"۔
گزشتہ برس 31 مئی کو پیش آنے والے واقعہ میں اسرائیلی فوجی کمانڈوز نے محصور فلسطینی علاقے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے بحری بیڑے کو فلسطین کی بحری حدود میں داخل ہونے سے بزورِ طاقت روک دیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کی کارروائی میں ایک امدادی جہاز پر سوار آٹھ ترک اور ایک ترک نژاد امریکی رضاکار ہلاک ہوگئے تھے۔
واقعے کے بعد ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں سخت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی اور ترکی نے اسرائیل سے باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ واقعہ کی تحقیقات کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک چار رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس میں نیوزی لینڈاور کمبوڈیا کے سابق رہنماؤں کے ہمراہ فریقین کا ایک ایک نمائندہ شامل تھا۔
رپورٹ کے مندرجات سے آگہی رکھنے والے ایک اسرائیلی عہدیدار نے گزشتہ ہفتے امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ ترکی نے عرب اور اسلامی دنیا میں اپنی ساکھ قائم کرنے کی غرض سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔
اسرائیلی عہدیدار کے مطابق اسرائیل نے واقعہ پر معذرت اور متاثرہ خاندانوں کو ہرجانے کی ادائیگی کے معاملات پر ترکی کے ساتھ خفیہ مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا۔ تاہم عہدیدار نے واضح کیا کہ رپورٹ میں اسرائیل سے نہ تو واقعہ پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور نہ ہی اسرائیل ایسا کرے گا۔