واشنگٹن —
یورپی یونین نے ذرائع ابلاغ کو دستیاب آزادی کی مخدوش صورتِ حال اور صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی پر ترکی پہ کڑی تنقید کی ہے۔
یورپی ممالک کی نمائندہ تنظیم نے کہا ہے کہ ترک صحافیوں کے خلاف عدالتی مقدمات پر بڑھتے ہوئے تحفظات ترکی کے اتحاد کا رکن بننے کی کوششوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ترکی پر یہ تنقید یورپی یونین کا رکن بننے کے امیدوار ممالک کی سالانہ جائزہ رپورٹ میں کی گئی ہے جسے رواں ہفتے جاری کیا گیا ہے۔
صحافیوں کے حقوق کےلیے سرگرم ایک عالمی تنظیم 'انٹرنیشنل فیڈریشن فار جرنلسٹس' کے مطابق ترکی میں اس وقت لگ بھگ 75 صحافی جیلوں میں بند ہیں جن کی اکثریت کو ان معاملات پر لکھنے کی پاداش میں قید کیا گیا ہے جنہیں حکومت متنازع قرار دیتی ہے۔
لیکن ترک حکومت نے یورپی یونین کی رپورٹ کو متعصب قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ گرفتار صحافیوں کو مختلف جرائم – بشمول حکومت کے خلاف سازشوں میں مدد دینے اور کرد علاقے میں جاری بغاوت جیسے قومی سلامتی سے متعلق امور پر تفیصلی مضامین تحریر کرکے دہشت گردوں کی اعانت کرنے- کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔
صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک امریکی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)' بھی ترکی میں ذرائع ابلاغ کو دستیاب آزادی کے موضوع پر رواں ماہ اپنی ایک رپورٹ جاری کرنے والی ہے جس کے بعد امکان ہے کہ اس معاملے پہ ترکی پر پڑنے والے عالمی دبائو میں اضافہ ہوگا۔
'سی پی جے' سے منسلک تجزیہ کار نینا اوگنیانووا کے مطابق گزشتہ برس کے اختتام پر ترکی میں صحافیوں کے خلاف تین سے پانچ ہزار تک فوجداری مقدمات موجود تھے جن کی بڑی وجہ ترکی کے انسدادِ دہشت گردی کے مبہم قوانین ہیں جنہیں حکام اپنے مقاصد کے لیے بآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان نے ترک ذرائع ابلاغ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کردوں سے متعلق معاملات کو رپورٹ کرنا بند کردیں کیوں کہ، ان کے بقول، کردوں کی تحریکِ آزادی کو مشتہر کرکے ذرائع ابلاغ اس علیحدگی پسند تحریک کے پروپیگنڈے کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔
یورپی ممالک کی نمائندہ تنظیم نے کہا ہے کہ ترک صحافیوں کے خلاف عدالتی مقدمات پر بڑھتے ہوئے تحفظات ترکی کے اتحاد کا رکن بننے کی کوششوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ترکی پر یہ تنقید یورپی یونین کا رکن بننے کے امیدوار ممالک کی سالانہ جائزہ رپورٹ میں کی گئی ہے جسے رواں ہفتے جاری کیا گیا ہے۔
صحافیوں کے حقوق کےلیے سرگرم ایک عالمی تنظیم 'انٹرنیشنل فیڈریشن فار جرنلسٹس' کے مطابق ترکی میں اس وقت لگ بھگ 75 صحافی جیلوں میں بند ہیں جن کی اکثریت کو ان معاملات پر لکھنے کی پاداش میں قید کیا گیا ہے جنہیں حکومت متنازع قرار دیتی ہے۔
لیکن ترک حکومت نے یورپی یونین کی رپورٹ کو متعصب قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ گرفتار صحافیوں کو مختلف جرائم – بشمول حکومت کے خلاف سازشوں میں مدد دینے اور کرد علاقے میں جاری بغاوت جیسے قومی سلامتی سے متعلق امور پر تفیصلی مضامین تحریر کرکے دہشت گردوں کی اعانت کرنے- کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔
صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک امریکی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)' بھی ترکی میں ذرائع ابلاغ کو دستیاب آزادی کے موضوع پر رواں ماہ اپنی ایک رپورٹ جاری کرنے والی ہے جس کے بعد امکان ہے کہ اس معاملے پہ ترکی پر پڑنے والے عالمی دبائو میں اضافہ ہوگا۔
'سی پی جے' سے منسلک تجزیہ کار نینا اوگنیانووا کے مطابق گزشتہ برس کے اختتام پر ترکی میں صحافیوں کے خلاف تین سے پانچ ہزار تک فوجداری مقدمات موجود تھے جن کی بڑی وجہ ترکی کے انسدادِ دہشت گردی کے مبہم قوانین ہیں جنہیں حکام اپنے مقاصد کے لیے بآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان نے ترک ذرائع ابلاغ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کردوں سے متعلق معاملات کو رپورٹ کرنا بند کردیں کیوں کہ، ان کے بقول، کردوں کی تحریکِ آزادی کو مشتہر کرکے ذرائع ابلاغ اس علیحدگی پسند تحریک کے پروپیگنڈے کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔