افغانستان میں طالبان حکام نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے ترکی اور قطر کی کمپنیوں کے مشترکہ وفد کے ساتھ دارالحکومت کابل اور دیگر افغان شہروں میں قائم ہوائی اڈوں کو چلانے سے متعلق منصوبوں پر بات چیت کی ہے۔
افغانستان کو فراہم کی جانے والی امداد کے لیے اس وقت کابل ایئر پورٹ ہی واحد ذریعہ ہے جب کہ جو افغان شہری ملک چھوڑنے کے خواہش مند ہیں، وہ بھی صرف کابل ایئر پورٹ کے ذریعے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔
رواں ہفتے جمعرات کو ہونے والی یہ بات چیت بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا حصہ ہے۔ جہاں لاکھوں افغان عوام کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔
طالبان کی وزارت برائے ٹرانسپورٹ کے ترجمان امام الدین احمدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ترکی اور قطر کی کمپنیوں کے مشترکہ وفد کے ساتھ ابتدائی بات چیت کے بعد معاملات مزید آگے بڑھانے کے لیے آئندہ ہفتے مذاکرات ہوں گے۔ ان کے بقول اس حوالے سے ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
اس سے قبل جمعرات کو ترک ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا تھا کہ کابل روانگی سے قبل ترک اور قطری کمپنیوں نے مساوی شراکت داری کی بنیاد پر مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔
امام الدین احمدی کا کہنا تھا کہ کابل شہر کے ایئر پورٹ کے علاوہ جن شہروں کے ہوائی اڈوں سے متعلق بات چیت کی گئی ان میں صوبہ بلخ، ہرات، قندھار اور خوست کے ایئر پورٹس شامل ہیں۔
ترکی نے رواں سال اگست میں امریکہ کی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد کابل ایئر پورٹ پر سیکیورٹی فراہم کرنے کی رضا مندی ظاہر کی تھی۔
ترکی نے امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والی افغان حکومت کی مدد کی تھی اور 31 اگست کو غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہونے تک چھ برس ایئر پورٹ کو تحفظ فراہم کیا تھا۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران کابل ایئر پورٹ کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچا تھا۔ جب کہ قطر نے ایئر پورٹ کو دوبارہ سے فعال بنانے کے لیے طالبان کی مدد کی تھی۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد لگ بھگ ایک لاکھ 24 ہزار غیر ملکیوں اور خطرے سے دوچار افغان شہریوں کو نکالنے میں مدد کی تھی۔ تاہم ہزاروں افغان شہری اب بھی ملک چھوڑنا چاہتے ہیں جن میں وہ لوگ شامل ہیں جو سابق افغان حکومت اور غیر ملکی افواج کے ساتھ منسلک تھے۔
افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا اور طالبان پر معاشی پابندیوں کی وجہ سے ملک کو معاشی مسائل کا سامنا ہے جب کہ کئی برس تک جاری رہنے والی جنگ، خشک سالی اور غربت کے سبب انسانی بحران شدید ہو رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق ملک کی لگ بھگ نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے جب کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد کو غذا کی کمی کی وجہ سے خطرات لاحق ہیں۔