بدھ کے روز سینکڑوں لوگ کابل کے پاسپورٹ آفس میں اس خبر کےایک روز بعد اکٹھے ہوئے کہ دفتر اس ہفتے دستاویزات جاری کرنے کے لئے دوبارہ کھل رہا ہے۔ طالبان سیکیورٹی اہل کاروں کو نظم و نسق برقرار رکھنے کی کوشش میں ہجوم میں سے کچھ افراد کو زبردستی پیچھے دھکیلنا پڑا۔
طالبان عہدے دار کہہ چکے ہیں کہ پاسپورٹ سروس ہفتے کے روز سے دوبارہ اپنا کام شروع کر دے گی۔ پاسپورٹ آفس کا کام اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے اور سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے معطل تھا۔ اس بندش کی وجہ سے افغانستان سے نکلنے کے خواہش مند بہت سے افراد پھنس کر رہ گٓئے ہیں۔
دفتر کے باہر موجود ایک درخواست گزار ،ماہر رسولی نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ،"میں یہاں پاسپورٹ لینے آیا ہوں لیکن جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، یہاں بہت سے مسائل ہیں۔ سسٹم کام نہیں کر رہا۔ یہاں کوئی عہدے دار ہمارے سوالوں کے جواب دینے اور ہمیں یہ بتانے کے لئے موجود نہیں کہ ہمیں کب ہیاں آنا چاہیے۔ لوگ ابہام کا شکار ہیں۔"
پاسپورٹ ڈپارٹمنٹ چلانے والے طالبان عہدے داروں کے ایک ترجمان نے اس سلسلے میں پوچھے گئے سوال پر کوئی فوری ردعمل نہیں دیا۔
افغانستان میں اسلام پرست تحریک کے قبضے کے بعد سے غربت اور بھوک کی صورت حال بدتر ہو چکی ہے، جب کہ وہ خشک سالی اور کویڈ 19 کی وبا کے باعث پہلے ہی سے مصائب کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افغانستان میں لگ بھگ پانچ لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور اگر صحت کی سہولیات،اسکولوں اور معیشت کی صورت حال مزید بگڑ گئی تو اس تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
پاسپورٹ آفس آنے والے سینکڑوں لوگ اس اعلان کے باوجود وہاں آئے تھے کہ پاسپورٹوں کی تقسیم کا کام ہفتے کے روز شروع ہو گا اور ابتدائی طور پر صرف ان کے لئے کام ہو گا جو پہلے ہی درخواستیں د ے چکے ہیں۔
ہجوم نے دفتر کے باہر کنکریٹ کی ایک بڑی رکاوٹ کے اوپر کھڑے ایک عہدےدار کو دستاویزات تھمانے کی کوشش میں دھکم پیل کی، جو تقریباً وہی منظر تھا جیسا کابل سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد انخلا کے آخری مراحل میں کابل ایئر پورٹ پر ہونے والی افرا تفری کے موقع پر دکھائی دیا تھا۔عہدے دار نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور ہفتے کے روز آئیں۔
ہجوم میں سے ایک شخص احمد شکیب صدیقی نے کہا، "میں یہاں پاسپورٹ لینے آیا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس صور تحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔"
صدیقی اور رسولی کا کہنا تھا کہ ملک چھوڑنے کی ان کی خواہش کی وجہ ملک میں شدید اقتصادی بد حالی کی صورت حال ہے۔
رسولی نے کہا، "یہاں کوئی روزگار نہیں ہے اور اقتصادی صورت حال اچھی نہیں ہے میں اپنے بچوں کے ایک اچھے مستقبل کے لیے باہر جانا چاہتا ہوں۔"
صدیقی نے کہا کہ اسے اپنے خاندان کے ایک فرد کے ہمراہ اس کے علاج معالجے کے لئے پاکستان جانے کے لئے پاسپورٹ چاہئے تھا۔ لیکن اس نے مزید کہا کہ ان کے پاس یہاں سے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس نے کہا،"ہمیں افغانستان سے نکلنا ہے۔ یہاں صورتحال بہت خراب ہے۔ کوئی روزگار نہیں، کوئی کام نہیں، یہ ہمارے یہاں رہنے کے لئے اچھےحالات نہیں ہیں"۔
طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ بین الاقوامی امداد کا خیر مقدم کرتے ہیں، جب کہ بہت سے عطیات دہندگان نے طالبان کے قبضے کے بعد سے اپنی معاونت مکمل طور پر روک دی ہے۔