ڈورین جونز
ترکی میں انٹرنیٹ پر نشر و اشاعت سے متعلق نئے ضابطے نافذالعمل ہو گئے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں تمام براڈکاسٹرز کو ایک جیسے قانون کی پاسداری کی ضرورت ہے، جبکہ نقادوں کا کہنا ہےکہ حکومت کے ان اقدامات کا مقصد آزاد صحافت کے اس آخری پلیٹ فارم کو بھی خاموش کرانے کی کوشش ہے۔
انور انجو اپنے گھر سے کام کرتے ہیں اور اوزگروز ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں جو ایک اینٹرنیٹ نیوز پورٹل ہے۔
اس ریڈیو کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ ریاست میں ریگولیٹری حکام کے کنٹرول سے باہر رہتے ہوئے خبریں فراہم کرتے ہیں۔ لیکن، اب ترکی میں نئے قوانین کے تحت انٹرنیٹ پر نشر و اشاعت پر بھی ریاست کے ضابطے لاگو ہوں گے۔
انور انجو کہتے ہیں کہ ’’ترکی میں کئی انٹرنیٹ پورٹلز ہیں۔ کئی نیوز ویب سائٹس، ویب ٹی وی۔ لوگ اپنے فون پر پیری سکوپ کے ذریعے سٹیزن جرنلزم کر رہے ہیں۔ حکومت اس کو دیکھتی ہے۔ اور یہ اس کے لیے مسئلہ بن گیا ہے کہ وہ اس کو روک نہیں سکتے۔ نئے براڈکاسٹ قوانین اس میڈیم پر کنٹرول کا راستہ ہیں۔‘‘
ترکی میں حکومت نے جب ذرائع ابلاغ پر اپنی گرفت مضبوط کی تو ملک میں انٹرنیٹ ٹی وی اور ریڈیو چینلز کی بھرمار ہو گئی۔ بہت سے معروف صحافی جو اپنی رپورٹنگ کے سبب چینلز سے نکالے گئے ان انٹرنیٹ براڈکاسٹرز کے لیے کام کرنے لگے۔ اور اب حکومت کی ان براڈکاسٹرز کو بھی ضابطوں کا پابند بنانے کی کوششوں کو انٹرنیٹ پر کنٹرول کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فریڈم آف ایکسپریشن سے وابستہ یمان الکدنیز کہتے ہیں ’’اہم سیاسی معلومات کے لیے آپ کو سوشل میڈیا پر جانا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترک حکام انٹرنیٹ کو ہدف بنا رہے ہیں۔ وہ نہ صرف انٹرنیٹ پر ریڈیو ٹی وی نشریات کو ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ پلیٹ فارمز سے متعلق متعدد مقدمات بھی بنائے گئے ہیں۔‘‘
دوسری جانب ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اقدامات کا مقصد نشر و اشاعت کے قوانین میں ہم آہنگی لانا اور براڈکاسٹرز پر ان کا برابر اطلاق ہے۔
نئے قوانین کے تحت وہ براڈکاسٹرز جنہیں لائسنس نہیں دیا گیا یا وہ اس کے لیے درخواست نہیں دے سکتے، انہیں بلاک کر دیا جائے گا یر پھر وہ بھاری جرمانوں کا سامنا کریں گے۔
حقوق کے لیے سرگرم گروپوں نے وکلا کو اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرنا پہلے سے شروع کر دیا ہے، کیونکہ ان کو تشویش ہے کہ انہیں جلد عدالتی کاروائیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ گروپس انٹرنیٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حکومت اقدامات کو بھی عدالت میں چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔
ایک خاتون براڈکاسٹر سالم ساہین کہتی ہیں کہ قوانین کو افراد کے حق اظہار کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ اور قانون بنانے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔
گزشتہ چند مہینوں میں عدالت نے آزادی اظہار سے متعلق معروف مقدمات میں حکومت کے خلاف فیصلے دیے ہیں۔ انور انجو اپنے ایک کولیگ کے ساتھ ملک سے فرار کے بعد برلن میں مقیم ہیں۔ وہ پر اعتماد ہیں کہ انٹرنیٹ کی طاقت سے حکومتی کنٹرول کے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں۔
ان جیسے بہت سے براڈکاسٹرز پرعزم ہیں کہ وہ آزاد صحافت کے لیے رپورٹنگ کرتے رہیں گے اور اگر حکومت نے ویب سائٹس پر پابندی لگا دی تو بھی لوگ پیری سکوپ کے ذریعے اپنی بات کہتے رہیں گے۔