ترکی میں 1000 سے زائد نجی اسکول اور ساتھ ہی ہزار کے قریب ادارے اور فاؤنڈیشن بند کر دی گئی ہیں، ایسے میں جب ترک صدر رجب طیب اردوان نے تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کے احکامات کا اعلان کیا ہے۔
گذشتہ ہفتے کی ناکام بغاوت جو اُن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی خواہش رکھتی تھی، صدر اردوان نے اس بات کے بھی احکامات صادر کیے ہیں کہ مشتبہ افراد پر فرد جرم کے بغیر 30 روز کے لیے حراست میں لیا جاسکتا ہے، جب کہ مروجہ قانون کے مطابق، حراست میں چار دِن تک رکھا جا سکتا ہے۔
گولن کی تحریک کے ساتھ ملوث ہونے کے شبے میں بند کیے جانے والے 1229 اِن خیراتی اداروں اور فاؤنڈیشنز میں 19 ٹریڈ یونینیں، 15 یونیورسٹیاں اور 35 طبی ادارے شامل ہیں۔
اردوان نےگذشتہ ہفتے کی بغاوت کا الزام عالم دین فتح اللہ گولن پر لگایا ہے۔ گولن نے، جو سنہ 1999 سے پنسلوانیا میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، ناکام بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی ہے۔
اس بات کا بھی عندیہ ملا ہے کہ ترکی نے دیگر ملکوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ گولن سے منسلک اسکولوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ بغاوت کے ناکام ہونے کے فوری بعد، صامالیہ کے حکام نے کہا تھا کہ وہ ملک بھر میں گولن سے واسطہ رکھنے والے منصوبوں کو بند کر رہے ہیں۔ ہفتے کے روز پاکستانی حکام نے بتایا کہ اُن پر ترکی نے دباؤ ڈالا ہے کہ تقریباً دو درجن اسکولوں کو بند کیا جائے، جس کے لیے انتظامی اقدام زیر ِغور ہے۔ ادھر کمبوڈیا اور تنزانیا سے بھی غیرمصدقہ میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ وہ گولن کے اداروں کو بند کرنے کی درخواستوں پر غور کر رہے ہیں۔