1960 سے اب تک کے درمیانی عرصے میں، ترک فوج نے چار سویلین حکومتوں کا تختہ الٹا ہے، اور جمہوری طور پر منتخب ہر وزیرِ اعظم کو فوج کے جنرلوں کے زیرِ تسلط کام کرنا پڑا ہے ۔ موجودہ وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان فوج کی نظر میں خاص طور سے نا پسندیدہ تھے اور ان کی اسلام پسند پارٹی کو ترکی کی سیکولر فوج شک و شبہے کی نظر سے دیکھتی رہی ہے ۔ لیکن جمعے کے روز، فوج کی پوری اعلیٰ قیادت بطور احتجاج مستعفی ہو گئی کیوں کہ فوج کے درجنوں سینیئر افسروں کو حکومت کے خلاف مبینہ سازش کرنے کے شبہے میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
ترک روزنامے تاراف کی ڈپٹی ایڈیٹریاسمین کونگر کہتی ہیں کہ اس اقدام سے ملک کی سیاست میں فوج کی مداخلت کا خاتمہ ہو گیا۔’’جمہوریت کی طرف ترکی کے لمبے سفر میں یہ ایک بڑا اہم قدم ہے۔ ماضی میں فوج کو ہمیشہ منتخب نمائندوں پر بالا دستی حاصل رہی تھی۔ اب ہم نے دیکھ لیا ہے کہ سویلین حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے اس کا فیصلہ ووٹ کی طاقت سے ہوتا ہے۔ جنرلوں کا دور ختم ہوچکا ہے۔‘‘
حکومت کے خلاف فوج کی مبینہ ریشہ دوانیوں کا بھانڈا پھوڑنے میں، اخبارتاراف پیش پیش رہا ہے ۔ دوسری طرف جنرلوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ ترکی یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا ہے اور اس کے لیے فوج کو سویلین کنٹرول کے تحت لانا ضروری ہے ۔لیکن استنبول کی سڑکوں پر، لوگوں کے خیالات ملے جلے ہیں۔
ایک شخص کا کہنا ہے’’میرے خیال میں یہ اچھا ہوا ہے۔ فوجی افسر وزیرِ اعظم کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم کسی ادارے میں کام کرتے ہیں اور اس کے اصولوں سے اتفاق نہیں کرتے، تو ہم استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ جمہوریتوں میں یہی کچھ ہوتا ہے، اور مجھے خوشی ہے کہ حالات معمول پر آ گئے ہیں۔‘‘
لیکن ان صاحب کی رائے اس سے مختلف ہے۔’’یہ دو حریفوں کے درمیان مقابلہ ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ ایک فریق کہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کر سکتے، لیکن ہم آپ کو دکھا دیں گے کہ ہم ایسا کر سکتےہیں۔ جمہوریت بالکل ویسی ہی رہے گی جیسی پہلے تھی۔‘‘
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس قسم کے خیالات کی ایک وجہ وزیرِ اعظم کا رویہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ مہینے کے انتخابات میں انہیں 50 فیصد ووٹ ملے ۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار کامیاب ہو چکےہیں۔ ناقدین کہتےہیں کہ ان کامیابیوں کی وجہ سے وہ روز بروز مطلق العنان ہوتے جا رہے ہیں۔ استنبول کی Bahcesehir University میں سیاسیات کے پروفیسرچنگیر اختر نے فوج کو سویلین کنٹرول میں لانے کا خیر مقدم کیا لیکن انھوں نے وزیرِ اعظم کی بڑھتی ہوئی طاقت پر تشویش کا اظہار کیا۔’’حد سے زیادہ خود اعتمادی اور طاقت کے احساس سے وزیرِ اعظم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ انہیں ہر ایک پر اور ہر چیز پر ہر قسم کا اختیار حاصل ہو گیا ہے ۔ اسے طاقت کی سیاست کہتے ہیں۔ اس اندازِ فکر سے مسائل کے پائیدار حل ممکن نہیں ہوتے۔‘‘
ناقدین حکومت سے اختلاف کرنے والے طالب علموں کے خلاف جاری کارروائی، کردوں کی حامی تحریک کے ہزاروں ارکان کی گرفتاری، اور 50 سے زیادہ صحافیوں کو قید کرنے کو ،طاقت کی سیاست کی مثالیں قرار دیتےہیں۔ اس قسم کی تشویش کا اظہار یورپ اور امریکہ میں ترکی کے اتحادیوں کی طرف سے بھی کیا جا رہا ہے ۔ گذشتہ مہینے ترکی کے دورے میں، امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا’’ترکی میں آئینی اصلاحات کے عمل سے حالیہ پابندیوں کے بارے میں تشویش پر توجہ دینے کا موقع ملتا ہے۔ میں نے اس بارے میں نوجوان ترکوں سے سنا ہے جو آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ مذہب، اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو مضبوط بنانے کی بات کر رہے ہیں۔‘‘
لیکن حال ہی میں ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملک میں نیا جمہوری آئین متعارف کرائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ نئے آئین کے مسودے کی تیاری میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت ہونی چاہیئے اور اسے ایسے اتفاق رائے سے تیار کیا جانا چاہیئے جس سے معاشرے کے تمام لوگوں کے مطالبات پورے ہو جائیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ نیا آئین جمہوری اور لبرل اور نقائص سے پاک ہونا چاہیئے۔ مبصرین کہتےہیں کہ اس عہد کی پاسداری اس بات کا امتحان ہو گی کہ وزیرِ اعظم اپنی طاقت کو کس طرح استعمال کریں گے۔