واشنگٹن —
شام میں گولان کے پہاڑی علاقے میں دو کار بم دھماکوں میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں اکثریت شامی فوج کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی ہے۔
گو کہ ان دھماکوں کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں شامی فوجیوں کےخلاف کار بم اور خودکش حملوں جیسے ہتھکنڈے اسلام پسند جنگجو استعمال کرتے آئے ہیں جو دیگر باغیوں کے ساتھ مل کر صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
'آبزروریٹری' کے مطابق شامی فوجی دستوں اور جنگی طیاروں نے جمعے کو بھی دارالحکومت دمشق کے ان نواحی علاقوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا جہاں باغیوں کا قبضہ ہے۔
دریں اثنا اقوامِ متحدہ نے جمعے کو عالمی ادارے میں شام کے سفیر کی جانب سے بھیجا گیا ایک خط جاری کیا ہے جس میں انہوں نے شام میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات عالمی عدالت برائے جنگی جرائم سے کرانے کے مطالبے کو مسترد کیا ہے۔
خیال رہے کہ لگ بھگ 60 ممالک نے اقوامِ متحدہ سے درخواست کی تھی کہ وہ شام میں حکومتی افواج کی جانب سےانسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مبینہ طور پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے واقعات کو تحقیقات کے لیے عالمی عدالت کو بھجوائے۔
شامی سفیر نے اپنے خط میں اس تجویز کو "منافقت اور دوہرے معیار کا عکاس" قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
شام میں گزشتہ 22 ماہ سے جاری حکومت مخالف احتجاجی تحریک اور خانہ جنگی میں اب تک اندازاً 60 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔
'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں اکثریت شامی فوج کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی ہے۔
گو کہ ان دھماکوں کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں شامی فوجیوں کےخلاف کار بم اور خودکش حملوں جیسے ہتھکنڈے اسلام پسند جنگجو استعمال کرتے آئے ہیں جو دیگر باغیوں کے ساتھ مل کر صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
'آبزروریٹری' کے مطابق شامی فوجی دستوں اور جنگی طیاروں نے جمعے کو بھی دارالحکومت دمشق کے ان نواحی علاقوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا جہاں باغیوں کا قبضہ ہے۔
دریں اثنا اقوامِ متحدہ نے جمعے کو عالمی ادارے میں شام کے سفیر کی جانب سے بھیجا گیا ایک خط جاری کیا ہے جس میں انہوں نے شام میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات عالمی عدالت برائے جنگی جرائم سے کرانے کے مطالبے کو مسترد کیا ہے۔
خیال رہے کہ لگ بھگ 60 ممالک نے اقوامِ متحدہ سے درخواست کی تھی کہ وہ شام میں حکومتی افواج کی جانب سےانسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مبینہ طور پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے واقعات کو تحقیقات کے لیے عالمی عدالت کو بھجوائے۔
شامی سفیر نے اپنے خط میں اس تجویز کو "منافقت اور دوہرے معیار کا عکاس" قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
شام میں گزشتہ 22 ماہ سے جاری حکومت مخالف احتجاجی تحریک اور خانہ جنگی میں اب تک اندازاً 60 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔