منگل کے روز ٹوئٹر کے شئیرز میں اس وقت22 فیصد تک اضافہ ہوا جب ایلون مسک نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کمپنی کو 44 ارب ڈالر میں خریدنے کی تجویز پیش کی۔میڈیا کےکچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ جمعہ کے روز ہی ہوسکتا ہے۔ ٹوئٹر کمپنی نے اس بارے میں ایلون مسک کا خط موصول ہو نے کی تصدیق کی ہے۔
رواں سال کے شروع میں ایلون مسک سوشل میڈیا کمپنی خریدنے کے معاہدے پر رضامند ہوئے، لیکن انہوں نے تقریبأ فوری طور پرمعاہدے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔
جولائی میں انہوں نےکمپنی کو باضابطہ طور پر اس معاہدے کو ختم کرنے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا ۔
ٹوئٹر نے مسک پر مقدمہ دائر کیا کہ عدالت انہیں خریداری کے معاہدے پر عمل درآمد کر نے پرمجبور کرے۔ دونوں فریقین کے درمیان 17 اکتوبر کو ڈیلاویئر کےچانسری کورٹ میں یہ مقدمہ چلنا تھا۔
مسک نے الزام لگایا کہ ٹوئٹر کمپنی اپنی سروس پر "بوٹس" کی تعداد کو غلط بتا رہی ہے۔ انہوں نے اور ان کے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا کمپنی"سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن" میں کارپوریٹ فائلنگ میں غلط نمبر فراہم کرکے سرمایہ کاروں کو گمراہ کررہی ہے۔
تاہم، ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ اس کے پلیٹ فارم پر بوٹس اور جعلی اکاؤنٹس میں دھوکہ دہی کےبارے میں مسک کے دعوے غلط فہمی پر مبنی تھے۔
مسک نے یہ بھی الزام لگایا کہ ٹوئٹر کمپنی اسے سپیم اور بوٹس سے متعلق ضروری ڈیٹا فراہم کرنے میں ناکام رہی، جس کی ٹوئٹر نے تردید کی۔ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ مسک اس معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی وجہ تلاش کر رہے ہیں ۔
مسک اپریل میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم خریدنے کے لیے معاہدےے دستخط کرنے کے بعد کئی مہینوں سے اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شیئر ہولڈرز پہلے ہی فروخت کی منظوری دے چکے ہیں۔اور جب مسک نے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا تو ٹوئٹر نے مقدمہ دائر کردیا۔
اگرچہ مسک نے مقدمے کی تاریخ میں تاخیر کرنے کی کوشش کی، تاہم چانسلر کیتھلین میک کارمک نے ٹوئٹر کے "ناقابل تلافی نقصان" کے امکانات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی درخواست کو مسترد کردیا۔ چانسلر نے مسک اور اس کے وکلاء کو اپنے جوابی دعوے میں ترمیم کرنے کی اجازت دی تاکہ کمپنی کے خلاف ایک الگ "وسل بلوؤر" مقدمے میں ٹوئٹر کے سابق سیکیورٹی کے سربراہ کی طرف سے لگائے گئے کچھ الزامات کو شامل کیا جاسکے۔
مسک کے خلاف ٹوئٹر کے مقدمے کی سماعت 17 اکتوبر سے شروع ہونے والی ہے۔
مسک کے خلاف ٹوئٹر کمپنی کے مقدمے کے کچھ اہم نکات
اس پورے معاملے میں اہم بات یہ بھی ہے کہ مسک کے خلاف ٹوئٹر کے مقدمے کی سماعت 17 اکتوبر کو ڈیلاویئر چانسری کورٹ میں شروع ہونے والی ہے۔ اور ماہرین کا خیال ہے کہ مسک اسی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
معاہدے سے الگ ہونے کے لیے مسک کا استدلال، بڑی حد تک یہ الزام ہے کہ ٹوئٹر نے غلط بیانی کی کہ وہ کس طرح ان "سپیم بوٹ" اکاؤنٹس کی سطح کو ناپتا ہے جو مشتہرین کے لیے بیکار ہیں۔
لیکن زیادہ تر قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عدالت کی سربراہ جج کیتھلین سینٹ جوڈ میک کارمک کو اس بات پر قائل کرنے میں انہیں ایک مشکل جنگ کا سامنا کرنا پڑاتھا کہ اپریل کے انضمام کے معاہدے کے بعد سے کوئی ایسی تبدیلی آئی ہے جو معاہدے کو ختم کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔
زیادہ تر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جولائی میں دائرکئے جانے والےاس مقدمے میں ٹوئٹرکو بالا دستی حاصل ہے۔ مسک نے جس معاہدے پر دستخط کیے ہیں اس کی بریک اپ فیس بھی ایک ارب ڈالر ہے۔
ویڈبش کے تجزیہ کار ڈین ایوس نے سرمایہ کاروں کو ایک نوٹ میں لکھا ہے"یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ مسک سمجھ گئے ہیں کہ ڈیلاویئر کی عدالت میں ٹویٹر بورڈ کےمقابلہ میں ان کےجیتنے کے امکانات بہت کم تھے۔"
بقول ڈین ایوس کے "ڈیلاویئر میں ایک طویل قانونی جنگ کے بعد معاہدہ کرنے پر مجبور ہونا کوئی مثالی منظر نامہ نہیں تھا، اور اس کے بجائے اس راستے کو قبول کرنے اور معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے سے ایک بڑے قانونی درد سر سے بچایا جاسکے گا۔"
دوسرے آپشنز میں مسک کو بریک اپ فیس ادا کرنے پر مجبور کیا جانا شامل ہے۔
قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ ڈیلاویئر کی عدالتیں اس بات کی تشریح کرنے کے بارے میں مستعد رہی ہیں کہ کسی معاہدےسے پیچھے ہٹنے کا درست سبب کیا ہے۔
ٹوئٹر کے حق میں موجود عوامل میں سے ایک وہ عدالتی حکم ہے جس میں چانسری کورٹ نے پچھلے سال پرائیویٹ ایکویٹی فرم" کوہلبرگ اینڈ کمپنی" کو پابند کیا تھا کہ وہ مینی سوٹا میں واقع ایک کمپنی ڈیکو پیک کی 55 کروڑ ڈالر میں خریداری پر عمل کرے۔
یہ کیس اگرچہ پورے طور پر یکساں نہیں ہے تاہم خریداروں پر معاہدے کی ذمہ داریوں کو نافذ کرنے کے عدالت کے عزم کی علامت تھا۔
ایک وکیل نے کہا کہ جب مسک نے اپریل میں اسے خریدنے کی پیشکش کی تھی تو ٹوئٹر کے بارے میں وہ جو کچھ جانتے تھے، اس میں اور آج کمپنی کے حالات کے درمیان فرق بہت بڑا ہونا چاہیے تھا، تاہم اس کے بہت کم ثبوت موجود ہیں۔
(یہ رپورٹ خبر رساں ادارے ایسسو سی ایٹڈ پریس کی اطلاعات پر مبنی ہے)