امریکہ میں سلیکون ویلی بینک اور نیویارک سگنیچر بینک کے دیوالیے کے باعث صارفین اپنا سرمایہ نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جب کہ ان بینکوں کے حصص کی فروخت میں بھی تیزی دیکھی گئی۔
28 سالہ سیم فرینکلن کہتے ہیں کہ "ہمارا تقریباً نوے فی صد کیش سلیکون ویلی بینک میں تھا۔" کچھ ایسی ہی خیالات فلورین سمینڈر نامی ایک اور بینک صارف کے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ" کیا یہ مذاق ہو رہا ہے، ہم اپنے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے۔"
یہ دونوں افراد امریکہ کے سلیکون ویلی بینک (ایس وی بی) کے دیوالیے سے متاثر ہونے والے کئی صارفین میں شامل ہیں۔
سیم فرینکلن لندن کی ریکروٹمنٹ کمپنی اوٹا کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ان کی کمپنی دنیا بھر میں ٹیکنالوجی سے متعلق افراد کی بھرتی کی خدمات فراہم کرتی ہے اور اس کا اکاؤنٹ بھی ایس وی بی میں تھا۔
فلورین سمینڈر ہانگ کانگ کی 'ساؤنڈ برینر' نامی کمپنی کے شریک چیف ایگزیکٹو ہیں اور ان کا کاروباری لین دین بھی امریکی بینک ایس وی بی کے ذریعے ہوتا تھا۔
امریکی حکام نے جمعے کو اس وقت سلیکون ویلی بینک بند کر دیا تھاجب بڑی تعداد میں کھاتے داروں نے یکمشت اپنے فنڈز نکالنا شروع کر دیے تھے۔ اتوار کو حکام نے 'نیویارک سگنیچر بینک' کا کنٹرول سنبھال لیا۔
سلیکون ویلی بینک کا شمار امریکہ کے 16 ویں بڑے بینک کے طور پر ہوتا ہے جہاں نہ صرف کئی ٹیکنالوجی کمپنیز کے اکاؤنٹس ہیں بلکہ یہ بینک کمپنیوں کو مختلف فنانشل سروسز بھی فراہم کرتا ہے۔
تقریباً 200 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ، سلیکون ویلی بینک کی ناکامی امریکی تاریخ میں دوسری سب سے بڑی ناکامی تھی۔یہ بینک قسمت آزمائی کے لیے پر خطر سرمایہ کاری میں بہت زیادہ ملوث تھا، خاص طور پر ٹیک سیکٹر میں۔
ٹیکنالوجی کے شعبے میں خدمات فراہم کرنے والے سینکڑوں ادارے اور افراد کیلی فورنیا میں قائم سلیکون ویلی بینک اور نیویارک سگنیچر بینک کی ناکامی سے متاثر ہوئے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو صارفین کو یقین دلایا تھا کہ حکومت ان کے سرمائےکا تحفظ یقینی بنائے گی۔ اطلاعات کے مطابق منگل کو کاروباری منڈیوں میں ان یقین دہانیوں کے باوجود بے چینی رہی اور دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں بینکوں کے شیئرز میں مندی کا رجحان رہا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پیر کو امریکی بینکوں کے حصص کی قدر میں 90 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی جب کہ تین روز کی ٹریڈنگ کے دوران حصص کی مجموعی قدر میں کمی 190 ارب ڈالرز تک جا پہنچی ہے۔
یہ بینک دیوالیہ کیوں ہوئے؟
دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کی طرح ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت بھی دباؤ کا شکار ہے، لیکن ماہرین کے مطابق امریکی بینکوں کے دیوالیے کی خبر نے عالمی مالیاتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
امریکہ میں گزشتہ برس مہنگائی نے 40 برس کے ریکارڈ توڑ دیے تھے جس کے بعد فیڈرل ریزرو بینک نے شرح سود میں متعدد بار اضافہ کیا اور اب یہ 4.75 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔
ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی میں کچھ کمی آئے گی لیکن اس سے لامحالہ معاشی شرح نمو سست ہو گی۔
ماہرین کے مطابق سلیکون ویلی اور نیو یارک سگنیچر بینک بھی انہی وجوہات کی بنا پر متاثر ہوئے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق سلیکون ویلی بینک نے کسی بھی عام بینک کی طرح حالیہ برسوں میں صارفین کے ڈیپازٹس استعمال کرتے ہوئے کم شرح سود پر اربوں ڈالرز کے بانڈز خریدے۔ لیکن بعدازاں شرح سود بڑھنے کے بعد ان بانڈز کی قدر گر گئی اور صارفین نے گھبرا کر اپنی رقوم نکلوانا شروع کر دیں۔
ماہرین کے مطابق بینک کے زیادہ تر کھاتے دار اسٹارٹ اپس اور ٹیکنالوجی کمپنیز ہیں جنہیں گزشتہ برس معاشی کساد بازاری کی وجہ سے کیش کی ضرورت رہی اور بڑے پیمانے پر صارفین نے رقوم نکلوانا شروع کردیں۔
بینک کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب صارفین کی رقوم نکلوانے کی درخواستوں کو پورا کرنے کے لیے بینک کو اپنے اثاثے بھی فروخت کرنا پڑے۔
امریکہ میں ڈھائی لاکھ ڈالر تک کی رقوم بینک میں رکھنے پر حکومت ڈیپازٹس انشورنس دیتی ہے۔ لیکن سلیکون ویلی میں کئی کھاتے داروں کی رقوم اس سے زیادہ تھیں اور یہی وجہ تھی کہ بینک کی ناکامی کے خدشے پیشِ نظر کھاتے داروں نے رقوم نکلوانے کو ترجیح دی۔
مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں بینک شرح سود میں اضافے سے متاثر ہوئے ہیں جس نے ان کے اثاثوں کے اہم حصوں کو ، مثلاً بانڈز اور ان سیکیورٹیز کو، جنہیں مارٹگیج کا تحفظ حاصل تھا، منفی طور پر متاثر کیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سلکیون ویلی بینک کی ناکامی کے اثرات آنے والے دنوں میں بھی ظاہر ہوتے رہیں گے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اب کمپنیاں صرف ایک بینک پر انحصار کرنے کے بجائے اپنا سرمایہ مختلف بینکوں میں رکھنے پر ترجیح دیں گی۔
اسی طرح نیویارک کے سگنیچر بینک کے بھی زیادہ تر صارفین ٹیک سیکٹر ، خاص طور پر کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتے تھے۔ 100 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے اس بینک کی ناکامی امریکی تاریخ کے تیسرے سب سے بڑے بینک کی ناکامی ہے۔
عالمی سطح پر اثرات
دو امریکی بینکوں کی ناکامی کے اثرات امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سامنے آ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق منگل کو ایشیا کی اسٹاک مارکیٹس میں بھی مندی کا رجحان رہا جب کہ جاپان اسٹاک مارکیٹ میں بھی بینکنگ سیکٹر میں سسست روی رہی۔
یورپین منڈیوں میں بھی بینکنگ سیکٹر دباؤ میں ہے۔ پیر کو یورپین بینکنگ انڈیکس میں 5.7 فی صد جب کہ جرمنی میں 12.7 فی صد اور سوئس بینکنگ سیکٹر میں کاروباری حجم 9.6 فی صد تک کم رہا۔
امریکی صدر کی یقین دہانیاں
بائیڈن نے پیر کو کاروباری ہفتے کے آغاز کے موقع پر وائٹ ہاؤس میں اپنے ایک پانچ منٹ کے بیان میں کہا تھا کہ امریکیوں کو اپنے بینکاری نظام کے محفوظ ہونے پر اعتماد ہونا چاہیے۔ آپ کا سرمایہ محفوظ ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کیلی فورنیا میں قائم سلیکون ویلی بینک اور نیویارک میں قائم سگنیچر بینک کے تمام صارفین کو اپنے اکاؤنٹس تک فوری رسائی حاصل ہے۔ وفاقی مالیاتی حکام نے ان بینکوں کے کاموں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔
بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ"ٹیکس دہندگان کو کوئی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ ان بینکوں کے مینیجرز کو برطرف کر دیا جائے گا۔"
اس خبر کے لیے خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے معلومات لی گئی ہیں۔